تشریح:
(1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کی صحت نیت پر مبنی ہے۔ اگر نیت نہیں تو عمل بھی صحیح نہیں ہو گا۔ اسی طرح دوسرے اعمال نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ نیت کے بغیر صحیح نہیں، چنانچہ نیت کے بغیر اگر کوئی شخص بے ساختہ زبان سے لفظ طلاق یا عتاق کہہ دیتا ہے تو مذکورہ اعمال صحیح نہیں، یعنی بیوی کو طلاق ہو گی نہ غلام آزاد ہو گا۔ (2) اس حدیث سے یہ مراد نہیں کہ نیت کے بغیر اعمال کا وجود ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں اعمال کے احکام کی صحت نیت پر موقوف ہے۔ کسی چیز کے صحیح یا غیر صحیح ہونے میں نیت ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، تاہم جنایات، مثلاً: قتل، چوری وغیرہ میں نیت کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ اگر کوئی جرم کا مرتکب ہو گا تو اسے سزا ملے گی۔ واللہ أعلم