قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِتْقِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «العَبِيدُ إِخْوَانُكُمْ فَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ»)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَبِالوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا، وَبِذِي القُرْبَى، وَاليَتَامَى وَالمَسَاكِينِ وَالجَارِ ذِي القُرْبَى، وَالجَارِ الجُنُبِ، وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ، إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا} [النساء: 36] قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: {ذِي القُرْبَى} [النساء: 36]: " القَرِيبُ، وَالجُنُبُ: الغَرِيبُ، الجَارُ الجُنُبُ: يَعْنِي الصَّاحِبَ فِي السَّفَرِ "‏.‏

2545. حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الأَحْدَبُ، قَالَ: سَمِعْتُ المَعْرُورَ بْنَ سُويْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا ذَرٍّ الغِفَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ، وَعَلَى غُلاَمِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا، فَشَكَانِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ»، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ إِخْوَانَكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَأَعِينُوهُمْ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ ٹھہراو اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیم وں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور رشتہ دار پڑوسیوں اور غیر پڑوسیوں اور پاس بیٹھنے والوں اور مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ ( اچھا سلوک کرو ) بی شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو تکبر کرنے اور اکڑنے والا اور گھمنڈ غرور کرنے والا ہو “۔ ( آیت میں ) ذی القربیٰ سے مراد رشتہ دار ہیں، جنب سے غیر یعنی اجنبی اور الجار الجنب سے مراد سفر کا ساتھی ہے۔تشریح : حضرت امام نے مقصد باب ثابت فرمانے کے لیے آیت قرآنی کو نقل فرمایا جس میں ترجمۃ الباب لفظ وما ملکت ایمانکم سے نکلتا ہے جس سے لونڈی غلام مراد ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ دوسرے قرابت داروں اور یتامیٰ و مساکین کے ساتھ ضروری ہے۔ عہد رسالت وہ دور تھا جس میں انسانوں کو لونڈی غلام بناکر جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا اور دنیا کے کسی قانون اور مذہب میں اس کی روک ٹوک نہ تھی۔ ان حالات میں پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ و سلام نے اپنی حسن تدبیر کے ساتھ اس رسم کو ختم کرنے کا طریقہ اپنایا اور اس بارے میں ایسی پاکیزہ ہدایات پیش کیں کہ عام مسلمان اپنے غلاموں کو انسانیت کا درجہ دیتے۔ لہٰذا ان کو اپنے بھائی بند سمجھنے لگ گئے۔ ان کے ساتھ ہر ممکن حسن سلوک ایمان کا خاصہ بتلایاگیا جس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ یہ رسم بدانسانی دنیا سے تقریباً ختم ہوگئی۔ یہ اسی پاکیزہ تعلیم کا اثر تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اب غلامی کی اور بدترین صورتیں وجود میں آگئی ہیں۔

2545.

حضرت معرور بن سوید سے روایت ہے انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابوذر غفاری  ؓ کودیکھا کہ وہ ایک عمدہ پوشاک زیب تن کیے ہوئے تھے اور ان کے غلام نے بھی اسی طرح کی پوشاک پہنی ہوئی تھی۔ ہم نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی۔ اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں میری شکایت کی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’ کیاتو نے اسے اس کی ماں کی وجہ سے عار دلائی ہے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے، اسلیے جس کا بھائی اس کے ماتحت ہوتو جو وہ خود کھاتاہے وہی اسے کھلائے اور جو خود پہنتا ہے وہی اسے پہنائے اور انھیں ایسے امور بجالانے کی تکلیف نہ دو جوان کے لیے قابل برداشت ہوں۔ اگر تم نے ان پر اس طرح کی مشقت ڈالی ہو جوان پر بھاری ہوتو اس میں ان کی مدد کرو۔‘‘