قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِتْقِ (بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّطَاوُلِ عَلَى الرَّقِيقِ، وَقَوْلِهِ: عَبْدِي أَوْ أَمَتِي)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَالصَّالِحِينَ مِنْ [ص:150] عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ} [النور: 32]، وَقَالَ: {عَبْدًا مَمْلُوكًا} [النحل: 75]، {وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى البَابِ} [يوسف: 25]، وَقَالَ: {مِنْ فَتَيَاتِكُمُ المُؤْمِنَاتِ} [النساء: 25] وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ» وَ {اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ} [يوسف: 42] عِنْدَ سَيِّدِكَ، وَمَنْ سَيِّدُكُمْ

2550. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا نَصَحَ العَبْدُ سَيِّدَهُ، وَأَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ كَانَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

حافظ نے کہا کہ کراہیت تنزیہی مراد ہے۔ کیوں کہ غلام سے اپنے کو اعلیٰ سمجھنا ایک طرح کا تکبر ہے۔ غلام بھی ہماری طرح خدا کا بندہ ہے۔ آدمی اپنے تئیں جانور سے بھی بدتر سمجھے غلام تو آدمی ہے اور ہماری طرح آدم کی اولاد ہے اور غلام لونڈی اس وجہ سے کہنا مکروہ ہے کہ کوئی اس سے حقیقی معنی نہ سمجھے۔ کیوں کہ حقیقی بندگی تو سوائے خدا کے اور کسی کے لیے نہیں ہوسکتی ( وحیدی ) آگے مجتہد مطلق حضرت امام بخارینے آیات قرآنی نقل کی ہیں جن سے لفظ غلام، لونڈی اور سید کے الفاظ استعمال کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ یہ سب مجازی معانی میں ہیں۔ لفظ عبد، مملوک اور سید آیات قرآنی و احادیث نبوی میں ملتے ہیں جیسا کہ یہاں منقول ہیں۔ ان سے ان الفاظ کا مجازی معانی میں استعمال ثابت ہوا۔ قال ابن بطال جاز ان یقول الرجل عبدی او امتی بقولہ تعالی و الصالحین من عبادکم و امتکم انما نہی عنہ علی سبیل الغلظۃ لاعلی سبیل التحریم و کرہ ذلک لاشتراک اللفظ اذ یقال عبداللہ وامۃ اللہ فعلی ہذا لا ینبغی التسمیۃ بنحو عبدالرسول و عبدالنبی و نحو ذلک مما یضاف العبد فیہ الی غیراللہ تعالی ( حاشیہ بخاری شریف ) اور سورہ نور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ” اور تمہارے غلاموں اور تمہاری باندیوں میں جو نیک بخت ہیں “ اور ( سورۃ نحل میں فرمایا ) ” مملوک غلام “ نیز ( سورہ یوسف میں فرمایا ) اور دونوں ( حضرت یوسف اور زلیخا ) نے اپنے آقا ( عزیز مصر ) کو دروازے پر پایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے سوہ نساءمیں ) فرمایا ” تمہاری مسلمان باندیوں میں سے “ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اپنے سردار کے لینے کے لیے اٹھو ( سعد بن معاذ ؓ کے لیے ) اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا ( یوسف نے اپنے جیل خانہ کے ساتھی سے کہا تھا کہ ) اپنے سردار ( حاکم ) کے یہاں میرا ذکر کردینا “۔ اور نبی کریم ﷺ نے ( بنو سلمہ سے دریافت فرمایا تھا کہ ) تمہارا سردار کون ہے؟

2550.

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی غلام اپنے آقا کی خیر خواہی کرے اور اپنے رب کی عبادت احسن انداز سے بجالائے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے۔‘‘