تشریح:
(1) ان روایات میں غلام کے لیے لفظ عبد، لونڈی کے لیے أمة اور آقا کے لیے لفظ سید استعمال ہوا ہے، اس طرح مجازی معنوں میں ان الفاظ کا استعمال درست ہے۔ جب حقیقی معنی مراد لیے جائیں تو ان کا استعمال ایسے مواقع پر صحیح نہیں۔ مختلف احادیث میں تطبیق کی یہی صورت ہے جسے امام المحدثین نے بیان کیا ہے، نیز انہوں نے ثابت کیا ہے کہ آقاؤں کو اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر قطعاً بڑائی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ انسان ہونے کے ناتے سے سب برابر اور حضرت آدم ؑ کی اولاد ہیں، شرافت اور بڑائی، نیز عزت و تکریم کی بنیاد تقویٰ اور پرہیزگاری ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی صراحت کی ہے۔ (2) حقیقی آقا اور حاکم و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ دنیاوی مالک اور آقا سب مجازی ہیں، آج ہیں تو کل فنا ہو جائیں گے۔ جن آیات اور احادیث میں ایسے الفاظ آقاؤں یا غلاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہاں مجازی معنی مراد ہیں۔