تشریح:
1۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ جب رسول الله ﷺ تم سے زیادہ بالوں والے اور زیادہ نظافت پسند بھی تھے، پھر بھی انھوں نے تین دفعہ سر پر پانی ڈالا اور اس مقدار پر اکتفا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صفائی اور طہارت اتنی مقدار سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ پرصفائی کا مدار خیال کرنا خود پسندی کی علامت ہے، یا وہم و وسوسہ کی وجہ سے ہے جس کو اہمیت دینا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:478/1)
2۔ اس سے معلوم ہوا کہ اموردین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ جواب دینے میں بخل سے کام نہ لے نیز طالب حق کا شیوه یہ ہونا چاہیے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں حیل و حجت نہ کرے۔ (عمدة القاري:24/3)
3۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسن بن محمد کا یہ سوال ابو جعفر کے ذکر کردہ سوال سے الگ ہے، دونوں واقعات میں حضرت جابر ؓ سے تعرض کرنے والے حسن بن محمد ہیں۔ سابق الذکر میں انھوں نے مقدار پانی پر اعتراض کیا تھا کہ مجھے اتنا کافی نہیں ہوتا اور یہاں انھوں نے کیفیت پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح میرے بال صاف نہیں ہوتے۔ پہلے واقعے کے وقت ابو جعفر موجود تھے، جبکہ اس واقعے کے وقت وہ موجود نہیں تھے۔ (فتح الباري:478/1)
4۔ حضرت جابر ؓ کا حسن بن محمد کو ابو جعفر کا چچا زاد بھائی کہنا بطور مجاز ہے، کیونکہ وہ دراصل ابو جعفر باقر کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں، وہ اس بنا پر کہ زین العابدین حضرت حسین ؓ کے بیٹے ہیں۔ اورحسن حضرت محمد ابن حنفیہ کے صاحبزادے ہیں اور محمد ابن حنفیہ حضرت علی ؓ کے صاحبزادے ہیں گویا حضرت حسین اور حضرت محمد ابن حنفیہ آپس میں پدری بھائی ہیں۔ لہٰذا حضرت حسن ابو جعفر کے نہیں بلکہ ان کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں اور حضرت جابر ؓ نے مجازی طور پر انھیں ابو جعفر کا چچا زاد کہا ہے۔ (فتح الباري:478/1)
5۔ حنفیہ نامی عورت حضرت علی ؓ کی بیوی تھیں جو حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد آپ کے عقد میں آئیں، ان کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یزید بن معاویہ کے پاس گزرا، اس بنا پر یا لوگوں نے حضرت علی ؓ کی طرف منسوب کرنا اچھا خیال نہیں کیا تاکہ حضرت علی ؓ کے ساتھ خاندانی رقابت قائم رہے۔ واللہ أعلم۔ انہی محمد کے بیٹے حسن ہیں جو حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق بحث و تحصیص کرتے ہیں۔