تشریح:
(1) مکاتب چونکہ غلام ہے جس کی انسانیت ناقص ہوتی ہے، اس انسانیت کو حاصل کرنے کے لیے سعی و کوشش کرنا جائز ہے، اس کے لیے وہ لوگوں سے اپیل کر سکتا ہے کہ میرے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ میں غلامی سے اپنی گردن آزاد کروا لوں۔ اس کی محتاجی بھوکے انسان کی ضرورت سے زیادہ ہے۔ بعض اوقات اس کی جمع شدہ پونجی بدل کتابت کے لیے ناکافی ہوتی ہے، اس لیے وہ سوال کر کے بھی مانگ سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ سوال کا استعانت پر عطف، خاص کا عام پر عطف ہے، حضرت بریرہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کے سوال کرنے کر برقرار رکھا۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کی وضاحت کر دیتے۔ (فتح الباري:236/5) (2) اس حدیث میں نو اوقیے چاندی کا ذکر ہے جبکہ قبل ازیں پانچ اوقیے چاندی کا بیان تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اصل میں معاملہ نو پر ہوا تھا۔ جب پانچ اوقیے چاندی باقی رہ گئی تو بریرہ ؓ حضرت عائشہ ؓ سے تعاون لینے کے لیے حاضر خدمت ہوئیں۔ واللہ أعلم