قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: کِتَابُ المُكَاتِبِ (بَابُ اسْتِعَانَةِ المُكَاتَبِ وَسُؤَالِهِ النَّاسَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2563. حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ، فَقَالَتْ: إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ وَقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً وَأُعْتِقَكِ، فَعَلْتُ، وَيَكُونَ وَلاَؤُكِ لِي، فَذَهَبَتْ إِلَى أَهْلِهَا فَأَبَوْا ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ عَرَضْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا، إِلَّا أَنْ يَكُونَ الوَلاَءُ لَهُمْ، فَسَمِعَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: «خُذِيهَا، فَأَعْتِقِيهَا، وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الوَلاَءَ، فَإِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ رِجَالٍ مِنْكُمْ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَيُّمَا شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، فَقَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، مَا بَالُ رِجَالٍ مِنْكُمْ يَقُولُ أَحَدُهُمْ: أَعْتِقْ يَا فُلاَنُ وَلِيَ الوَلاَءُ، إِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ

مترجم:

2563.

حضرت عائشہ  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت بریرہ  ؓ آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے آقاؤں سے نو اوقیے چاندی پر مکاتبت کامعاملہ کیاہے۔ مجھے ہرسال ایک اوقیہ ادا کرناہوگا، لہذا آپ میری مدد کریں۔ حضرت عائشہ  نے فرمایا: اگر تیرے مالک پسند کریں تو میں انھیں یہ رقم یکمشت اداکرکے تجھے آزاد کردوں (تو) میں ایسا کرسکتی ہوں لیکن تیری ولا میرے لیے ہوگی، چنانچہ حضرت بریرہ  اپنے آقاؤں کے پاس گئیں تو انھوں نے اس صورت سے صاف انکارکردیا مگر یہ کہ ولا ان کے لیے ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ سنا تو مجھ سے دریافت کیا، چنانچہ میں نے آپ کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم اسے لے کر آزاد کردو اور ان کے لیے ولا کی شرط کرلو۔ ولاتو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ  ؓ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کیا، اللہ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’ أما بعد!تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی اصل اللہ کی کتاب میں نہیں ہے؟جس شرط کی اصل اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کافیصلہ ہی برحق اور اللہ کی شرط ہی مضبوط ہے۔ تم میں سے کچھ لوگوں کا عجیب حال ہے، وہ کہتے ہیں: اے فلاں!تو آزاد کرلیکن ولا میرے لیے ہوگی۔ ولا کا مالک تو وہی ہے جوآزاد کرے۔‘‘