تشریح:
1۔ شارحین نے اس عنوان کے دو مطلب بیان کیے ہیں۔ * فریضہ غسل ایک مرتبہ پانی بہا لینے سے ادا ہو جاتا ہے جس طرح وضو میں ایک مرتبہ پانی ڈالنا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔جن روایات میں تین مرتبہ کا ذکر ہے وہ تحصیل کمال کے پیش نظر ہے۔ اس کے لیے وقت اور پانی میں گنجائش کا ہونا ضروری ہے۔ * بعض روایات میں ہے کہ شروع شروع میں غسل جنابت کے لیے سات مرتبہ پانی بہانا ضروری تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے باربار سوال کرنے پر اسے ایک بار کر دیا گیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 247) (یہ روایت ضعیف ہے) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اسلام کا وہ عمل منسوخ ہے اور اب ایک مرتبہ پانی بہانا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔
2۔ شارح بخاری ابن بطال ؒ کہتے ہیں: امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان ’’پھر اپنے جسم پر پانی بہایا‘‘ کے الفاظ سے بایں طور ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت میمونہ ؓ نے کوئی عدد ذکر نہیں کیا، اس لیے کم ازکم تعداد یعنی ایک مرتبہ پر اسے محمول کیا جائے گا، اصل یہی ہے کہ ایک مرتبہ پر اضافہ نہ کیا جائے، یعنی تکرار خلاف اصل ہے اور اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غسل میں استیعاب اور تعمیم شرط ہے، تعداد وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں۔ (شرح ابن بطال: 474/1) علامہ سندھی نے ایک اور انداز سے اس عنوان کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں: حضرت میمونہ ؓ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کی پوری کیفیت بیان کر رہی ہیں، انھوں نے ہاتھ دھونے کی تعداد ذکر کی، لیکن پانی بہانے میں ذکر تعداد سے سکوت فرمایا، یہ سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ پانی بہانے میں تکرار نہیں، بلکہ صرف ایک بار بہانے پر اکتفا کیا گیا۔ (حاشیة السندي:57/1) ابن بطال نے عدم ذکر سے عدم واقعہ پر استدلال لیا ہے۔ جبکہ علامہ سندھی نے محل بیان سے سکوت کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور محل بیان کا سکوت حجت ہوتا ہے۔