تشریح:
شارحین نے باب میں وارد لفظ حلاب کے درج ذیل مفہوم بیان کیے ہیں۔ * شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں کہ حلاب بیجوں سے نکالے ہوئے دودھ یعنی روغن کو کہتے ہیں اہل عرب اپنی عادت کے مطابق سر اور دیگر اعضاء کی صفائی کے لیے اس محلب کو استعمال کرتے تھے۔ اس سے مراد برتن نہیں، لیکن اہل عرب آج اس لفظ حلاب کو اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ شاید یہ لفظ ان معنوں میں پہلے مستعمل رہا ہو گا، جو اب متروک ہو چکا ہے۔ *حلاب اس برتن کو کہتے ہیں جس میں اونٹنی کا دودھ جمع کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت کے متعلق محدثین کرام کو خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ آئمہ کرام نے امام بخاری ؒ کی تغلیط کی ہے، بغرض افادہ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: * ان میں سر فہرست محدث اسماعیلی کا نام ہے، انھوں نے فرمایا کہ امام بخاری کی سمجھ کے مطابق حلاب کسی خوشبو کا نام ہے، حالانکہ غسل سے پہلے خوشبو استعمال کرنا چہ معنی وارد؟ (فتح الباري:479/1) * علامہ خطابی نے کہا: حلاب ایک ایسا برتن ہے جس میں اونٹنی کو ایک بار دوھنے کی مقدار آتی ہے، امام بخاری ؒ نے اس لفظ کا ذکر کیا ہے، لیکن اسے غسل میں خوشبو استعمال کرنے پر محمول کیا ہے۔ (فتح الباري:480/1) * محدث حمیدی نے لکھا کہ امام مسلم نے تو حلاب سے برتن ہی سمجھا، مگر امام بخاری کے خیال کے مطابق ایک خوشبو کا نام ہے جو غسل سے پہلے استعمال ہوتی ہے۔ (فتح الباري:480/1) * علامہ سندھی نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے ظاہر طریقے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حلاب کو خوشبو کی کوئی قسم خیال کیا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حلاب سے مراد ایک برتن ہے۔ (حاشیة السندي:57/1) * مشہور لغوی ازہری نے کہا ہے کہ صحیح بخاری کے نسخے میں کتابت کی غلطی ہے، کیونکہ اصل لفظ جلاب ہے جو گلاب کا معرب ہے، اس کے معنی آب ورد ہیں، کسی کاتب کی غلطی سے حلاب بن گیا ہے۔ (فتح الباري:480/1) واضح رہے کہ یہ تمام احتمالات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور امام بخاری ؒ کی دقت نظر اور علمی جامعیت سے انھیں دور کا واسطہ بھی نہیں۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ میں نے بعض حضرات کی جن کا نام اب مجھے یاد نہیں آ رہا یہ توجیہ دیکھی ہے کہ عنوان میں الطیب سے مقصود حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ وہ احرام کے وقت رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگایا کرتی تھیں اور غسل چونکہ سنن احرام سے ہے، اس لیے گویا خوشبو وقت غسل ثابت ہوئی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر غسل کے وقت آپ کی عادت خوشبو لگانے کی نہ تھی اور آپ نے خوشبو کے بغیر بھی غسل فرمایا ہے۔ وہ اس توجیہ کو احسن الاجوبۃ قراردیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ اس توجیہ کی تقویت اس امر سے ہوتی ہے کہ سات ابواب کے بعد امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔’’جس نے خوشبو لگائی پھر غسل کیا اور خوشبو کے اثرات باقی رہے۔‘‘ پھر حدیث عائشہ ؓ ذکر کی ہے جس سے خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنا ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اس عنوان میں (باب من بدأ بالحلاب) سے غسل کا برتن مراد ہے جسے آپ نے بغرض غسل طلب فرمایا اور من بدأ بالطیب کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے غسل کا ارادہ کرتے وقت خوشبو کا استعمال فرمایا ۔ عنوان میں دونوں امر ملحوظ ہیں، لیکن پیش کردہ حدیث میں آپ کی مداومت بداءت غسل ثابت ہوتی ہے اور غسل کے بعد خوشبو لگانا تو آپ کی عام عادت تھی اور قبل از غسل خوشبو لگانا اس کی طرف اشارہ حدیث عائشہ ؓ سے کردیا۔ (فتح الباري:481/1) لیکن حدیث عائشہ ؓ میں جس خوشبو کا ذکر ہے وہ حصول نشاط کے لیے معلوم ہوتی ہے کہ خوشبو محرک ہونے کی وجہ سے جماع کے لیے مفید ہوتی ہے اور اس کا غسل سے کوئی تعلق نہیں۔ واللہ أعلم۔