تشریح:
(1) حدیث میں مذکورہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی مرض وفات سے متعلق ہے۔ آپ اس وقت حضرت میمونہ ؓ کے گھر میں تھے جب آپ نے بیماری کے ایام حضرت عائشہ ؓ کے گھر گزارنے کی اجازت طلب کی۔ اس موقع پر تمام ازواج نے اپنی اپنی باری ہبہ کر دی تھی۔ اجازت دینا شوہر کے لیے ازواج کا ہبہ تھا، پھر ازواج نے جن حقوق کو معاف فرمایا انہوں نے پھر اس سے رجوع بھی نہیں کیا۔ اس صورت میں ہبہ کے لغوی معنی مراد ہوں گے۔ (2) بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدیقۂ کائنات نے حضرت علی ؓ کا نام عداوت کی وجہ سے نہیں لیا تھا، حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ایک طرف حضرت عباس ؓ تھے جو آخر تک رہے دوسری طرف حضرت بریرہ، پھر حضرت علی، حضرت فضل بن عباس ؓ اور حضرت اسامہ بن زید ؓ تھے۔ چونکہ ان میں سے کوئی ایک معین نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ نے اس کا تعین کرنے کے بجائے کہہ دیا کہ دوسری طرف ایک اور شخص تھا۔ اس تعبیر کو عداوت پر محمول کرنا صدیقۂ کائنات کے متعلق بدگمانی ہے۔