تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا باب کیوں قائم کیا ہے؟ اس کے متعلق علماء کی دو رائے ہیں: * امام بخاری ؒ مضمضة اور استنشاق کا الگ باب قائم کر کے غسل میں اس کا وجوب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ عینی ؒ نے اس کا ذکر کیا ہے۔ (عمدة القاري:26/3) امام بخاری ؒ کا مقصد مضمضة اور استنشاق کا عدم وجوب ثابت کرنا ہے، اس کے قائل ابن بطال ہیں اور حافظ ابن حجر ؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
2۔ مضمضة اور استنشاق غسل میں واجب ہیں یا سنت ؟ احناف اور حنابلہ واجب کہتے ہیں جبکہ مالکیہ اور شوافع اسے سنت قراردیتے ہیں۔ امام بخاری ؒ کے ترجمۃ الباب سے یہ معلوم ہوتا ہے غالباً وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ غسل سے پہلے اگر وضو نہ کیا جائے۔ (کیونکہ اسے وجوب کا درجہ حاصل نہیں صرف سنت ہی ہے) تو غسل سے پہلے مضمضة (کلی کرنے) اور استنشاق (ناک میں پانے ڈالنے ) کا اہتمام ضرور کر لیا جائے۔ واللہ أعلم
3۔ اس روایت میں ہے کہ غسل کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بدن صاف کرنے کے لیے رومال پیش کیا گیا، لیکن آپ نے اس سے اپنا بدن صاف نہیں فرمایا۔ دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے بدن صاف کیا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:274۔ 276) اس سے ان حضرات کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ وضو اور غسل چونکہ عبادت کا مقدمہ ہیں اس لیے ان کا پانی بدن میں جذب ہونا چاہیے، اسے ہاتھ یا کپڑے سے صاف کرنا عبادت کے اثر کو زائل کرنا ہے جو درست نہیں، اس مسئلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ وضو کے بعد اپنے ہاتھوں کو صاف نہ کرو۔ یہ حدیث صحیح نہیں۔ ابن صلاح نے لکھا ہے کہ مجھے اس حدیث کا سراغ نہیں ملا۔ یہ حدیث امام ابن حبان ؒ نے اپنی تالیف "الضعفاء" میں اور ابن ابی حاتم ؒ نے کتاب العلل میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کی ہے، لیکن یہ معیار محدثین پر پوری نہیں اترتی، لہٰذا قابل حجت نہیں۔ بہر حال وضو اور غسل میں اعضاء پر لگا ہوا پانی صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:471/1) باقی رہا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رومال کو استعمال نہیں فرمایا تو اس سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ غسل کے بعد اس کا استعمال ضروری نہیں، اگر ضرورت ہو تو اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ممانعت کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔