تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو اچھی طرح دھونے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔ حالانکہ یہ بات پہلے باب میں معلوم ہو چکی تھی۔ یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب میں ہاتھ کو مٹی پر رگڑنے اور یہاں دیوار پر مارنے کا ذکر ہے، ان دونوں میں فرق ہے۔ (عمدة القاري:27/3) اس کے علاوہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف شیوخ کے استنباط و استخراج کی طرف اشارہ فرمایا ہے، مثلاً:عبد اللہ بن زبیر حمیدی نے مسح الید بالتراب ثابت کرنے کے لیے حدیث میمونہ کو بیان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امام بخاری ؒ کے استاد عمر بن حفص بن غیاث نے اس حدیث سے مضمضة اور استنشاق کا استخراج کیا تھا۔ لہٰذا دونوں روایات کو ایک دوسرے سے قوت و تائید بھی حاصل ہوگئی۔ (شرح الکرماني:123/1)
2۔ مام بخاری ؒ کے علاوہ امام ابو داؤد ؒ نے بھی حدیث میمونہ پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: "استنجاء سے فراغت کے بعد آدمی کا اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑنے کا بیان" فرق صرف اتنا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اسے کتاب الغسل میں بیان کیا ہے، جبکہ امام ابو داود ؒ نے کتاب الطهارة میں ذکر کیا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عناوین کی دو قسمیں ہیں: * عنوان ایک دعوی کی قبیل سے ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث اس دعوی کی دلیل ہوتی ہے. صحیح بخاری کے بیشتر عنوان اسی قسم سے متعلق ہیں۔ * عنوان بعد میں آنے والی حدیث کی شرح اور وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔ مذکورہ عنوان اسی قسم سے ہے، کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے استنجے سے فراغت كے بعد اپنے ہاتھ کو دیوار پر رگڑا۔ امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضاحت کردی کہ ہاتھ کو دیوار پر رگڑنے سے مقصود صفائی کا حصول تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس مقام پر ایک اختلاف کی طرف اشارہ کر کے اپنا رجحان بیان کررہے ہیں، اختلاف یہ ہے کہ ہاتھ کو زمین پر رگڑنے سے مقصود حصول نظافت ہے يا حصول طہارت ؟ اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے نظریاتی اختلاف پر ہے، وہ اس طرح کہ بعض حضرات کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد جس بد بو کو دور کرنے کے لیے ہاتھوں کو زمین پر رگڑ اجاتا ہے، وہ درحقیقت نجاست کے ان اجزاء کو دور کرنے کے لیے ہے جو نظر نہیں آتے، لیکن ہاتھ میں تحلیل ہو جاتے ہیں، یہ حضرات اپنے اس موقف کی تائید میں کہتے ہیں کہ خروج ریح سے وضو اسی لیے ٹوٹتا ہے کہ نجاست کے اجزا ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے خروج سے طہارت ساقط ہو جاتی ہے، ان کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا ضروری ہے تاکہ نجس اجزا سے طہارت ہو جائے، جبکہ دوسرے حضرات کا موقف ہے کہ ہوا میں نجاست کے اجزا نہیں ہوتے بلکہ ان کے قریب سے ہوا کے گزرنے کی بنا پر اس میں بوکی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ان ہوائی کیفیات کا زائل کرنا ضروری نہیں، بلکہ حصول نظافت کے لیے یہ عمل کیا جا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر گیلے کپڑے پر بدبو دار ہوا گزر ے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہوتا، اگر اس ہوا میں نجاست آلود اجزاء ہوتے تو اس گندی ہوا کے گزرنے سے کپڑا پلید ہونا چاہیے تھا۔ باقی رہا خروج ریح سے نقض طہارت کا مسئلہ تو یہ شریعت کے ایک منصوص حکم کی وجہ سے ہے۔ وہ اس لیے نہیں کہ نجاست کے اجزاء اس ہوا میں شامل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی ہوا ناقض وضو ہے، خواہ اس سے بدبو آئے یا نہ آئے، اس لیے ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس اختلاف پر تنبیہ فرمائی ہواور اس امر کو ترجیح دی ہو کہ ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھونا طہارت کے لیے نہیں بلکہ نظافت کے لیے ہے، تاکہ ازالہ عین نجاست کے بعد جو بدبو کے اثرات باقی رہ گئے ہیں انھیں بھی دور کردیا جائے، کیونکہ ان کی موجود گی باقی اعضائے جسم دھونے کے لیے نفرت کا باعث ہے۔ (فتح الباري:483/1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل جنابت کیا تو اپنی شرمگاہ کو دھویا (فغسل فرجه) کی ’’فا‘‘ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہاں ’’فا‘‘ تعقیب کے لیے نہیں، بلکہ تفسیر کے لیے ہے، کیونکہ استنجا غسل سے فراغت کے بعد نہیں ہوا۔ (عمدة القاري:27/3) دراصل یہ’’فا‘‘ عاطفہ ہے جو بیان ترتیب کے لیے استعمال ہوئی ہے اور حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل فرمایا تو اپنے غسل کی ترتیب اس طرح فرمائی کہ پہلے غسل فرج کیا، پھر ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھویا، پھر وضو فرمایا، بعد ازیں غسل فرما کر اپنے پاؤں وہاں سے الگ ہو کردھوئے۔(شرح الکرماني:123/1) علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے کہ ’’فا‘‘ تفصیل کے لیے ہے، کیونکہ غسل کے اجمال کو اس’’فا‘‘ کے بعد تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ہمیشہ تفصیل اجمال کے بعد ہوتی ہے۔