قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات وشمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا (بَابُ إِذَا وَهَبَ دَيْنًا عَلَى رَجُلٍ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ شُعْبَةُ عَنِ الحَكَمِ: «هُوَ جَائِزٌ» وَوَهَبَ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ لِرَجُلٍ دَيْنَهُ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «مَنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ حَقٌّ، فَلْيُعْطِهِ أَوْ لِيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ» فَقَالَ جَابِرٌ: قُتِلَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، «فَسَأَلَ النَّبِيُّ ﷺ غُرَمَاءَهُ أَنْ يَقْبَلُوا ثَمَرَ حَائِطِي وَيُحَلِّلُوا أَبِي»

2601. حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا، فَاشْتَدَّ الغُرَمَاءُ فِي حُقُوقِهِمْ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمْتُهُ، فَسَأَلَهُمْ أَنْ يَقْبَلُوا ثَمَرَ حَائِطِي، وَيُحَلِّلُوا أَبِي، فَأَبَوْا، فَلَمْ يُعْطِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَائِطِي وَلَمْ يَكْسِرْهُ لَهُمْ، وَلَكِنْ قَالَ: «سَأَغْدُو عَلَيْكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ»، فَغَدَا عَلَيْنَا حِينَ أَصْبَحَ، فَطَافَ فِي النَّخْلِ وَدَعَا فِي ثَمَرِهِ بِالْبَرَكَةِ، فَجَدَدْتُهَا فَقَضَيْتُهُمْ حُقُوقَهُمْ، وَبَقِيَ لَنَا مِنْ ثَمَرِهَا بَقِيَّةٌ، ثُمَّ جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ، فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: «اسْمَعْ، وَهُوَ جَالِسٌ، يَا عُمَرُ»، فَقَالَ: أَلَّا يَكُونُ؟ قَدْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهِ، إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

شعبہ نے کہا اور ان سے حکم نے کہ یہ جائز ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اپنا قرض معاف کردیا تھا اور نبی کریمﷺنے فرمایا، اگر کسی کا دوسرے شخص پر کوئی حق ہے تو اسے ادا کرنا چاہئے یا معاف کرالے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے باپ شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ نبی کریم ﷺنے ان کے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کی ( صرف موجودہ ) کھجور ( اپنے قرض کے بدلے میں ) قبول کرلیں اور میرے والد پر ( جو قرض باقی رہ جائے اسے ) معاف کردیں۔ تشریح : فرمان نبوی جو یہاں منقول ہے اس سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ حق قرض کو بھی شامل ہے جب اس کو معاف کرانے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قرض کا معاف کرنا درست ہے۔ خواہ خود وہ قرض دار کو معاف کردے یا دوسرے شخص کو وہ قرض دے ڈالے کہ تم وصول کرلو اور اپنے کام میں لاؤ۔ مالکیہ کے نزدیک غیر شخص کو بھی دین کا ہبہ درست ہے اور شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک درست نہیں۔ البتہ مدیون کو دین کا ہبہ کرنا سب کے نزدیک درست ہے۔ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمد ہے۔ آنحضرت ﷺکے نواسے اور جنت کے پھول ہیں، جنت کے تمام جوانوں کے سردار،3ھ رمضان المبارک کی پندرہویں تاریخ کو پیدا ہوئے، وفات50ھ میں واقع ہوئی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ ان سے ان کے بیٹے حسن بن حسن اور ابوہریرہ اور بڑی جماعت نے روایت کی ہے۔ جب ان کے والد بزرگوار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوفہ میں شہید ہوئے تو لوگوں نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی جن کی تعداد چالیس ہزار سے زیادہ تھی اور حضرت معاویہؓ  کے سپرد خلافت کا کام پندرہویں جمادی الاول 41ھ میں کیاگیا۔ ان کے اور فضائل کتاب المناقب میں آئیں گے۔

2601.

حضرت جابر بن عبداللہ  ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئے توان کے قرض خواہوں نے اپنے حقوق کی ادائیگی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کا پھل قبول کرلیں۔ اورمیرے باپ کو قرض کی ذمہ داری سے بری کردیں تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر ان لوگوں کو میرا باغ نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل ہی تڑوایا بلکہ آپ نے فرمایا: ’’میں تیرے پاس إن شاء اللہ تعالیٰ کل آؤں گا۔‘‘ چنانچہ آپ اگلے روزصبح تشریف لائے۔ نخلستان میں چکر لگایا اور پھل میں برکت کی دعا فرمائی، پھر میں نے باغ کا پھل توڑا اور قرض خواہوں کے تمام حقوق ادا کردیے، باغ کےپھل میں سے کچھ بچ بھی رہا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواجبکہ آپ تشریف فرماتھے۔ میں نے صورت واقعہ سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے حضرت عمر  ؓ سے فرمایا جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے: ’’عمر!سن رہے ہو؟‘‘ حضرت عمر فاروق  ؓ نے عرض کیا: یہ کیوں نہ ہوتا!ہم تو پہلے ہی آپ کو اللہ تعالیٰ کافرستادہ مانتے ہیں۔ اللہ کی قسم!واقعی آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔