تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے سفارش کی کہ وہ حضرت جابر ؓ کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور باقی ماندہ قرض معاف کر دیں۔ اگر وہ اس پیشکش کو قبول کر لیتے تو اس سے حضرت جابر ؓ کے باپ کی قرض سے براءت ہو جاتی۔ دراصل ایسا کرنا قرض خواہ کی طرف سے مقروض کو قرض ہبہ کر دینا ہے۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ قرض کے معاملے میں ایسا کرنا جائز ہے۔ اگر ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قرض خواہوں سے اس قسم کی سفارش نہ کرتے۔ شرعی اعتبار سے ایسا معاملہ کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ (2) حدیث کی اپنے عنوان سے مطابقت بالکل واضح ہے لیکن علامہ عینی نے اسے ’’تکلف‘‘ قرار دیا ہے بلکہ اسے معنوی مطابقت کہا ہے۔ (عمدة القاري:424/9) مولانا امین احسن اصلاحی نے عینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ روایت غیر متعلق ہے۔ مزید کہا ہے: میں بھی کہتا ہوں کہ باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (تدبرحدیث:357/2) یہ ہے ان حضرات کی امانت و دیانت اور ان کا مبلغ علم اور علمی بصیرت۔ تدبر حدیث میں اس طرح کے متعدد شاہکار دیکھے جا سکتے ہیں، ہم انہیں جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بإذن اللہ تعالیٰ