Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: To give as a gift, something not present)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2603.
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ اور حضرت مروان ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب قبیلہ ہوازن کا وفدآیا تو آپ لوگوں میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی جو اس کے شایان شان ہےپھر فرمایا: "’’ أمابعد، (لوگو!) تمہارے بھائی تائب ہوکر ہمارے پاس آئے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ میں ان کے قیدی انھیں واپس کردوں۔ تم میں سے جو کوئی خوشی سے پسند کرے وہ بھی ایسا کردے اور جو اپنا حق باقی رکھنا چاہتا ہو، وہ اس شرط پر ایسا کردے کہ جب آئندہ ہمارے پاس غنیمت کامال آئے تو ہم اس کو دے دیں گے۔‘‘ لوگوں نے کہا: ہم آپ کے فیصلے پر راضی ہیں۔
تشریح:
اس روایت کے مطابق آئندہ مالِ غنیمت کا معاملہ مبہم تھا، گویا وہ غائب تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ آنے والا مال ہبہ کر دیا۔ اس میں کوئی چیز حاضر نہیں تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شے معلوم ہو اور اس کا حصول ممکن ہو تو غائب چیز ہبہ کی جا سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2494
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2583
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2583
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2583
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہبہ میں قبضہ ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے اس خیال کو غلط قرار دیا کہ غائب اور غیر مقبوضہ کا ہبہ بھی جائز ہے جبکہ شے معین اور معلوم ہو اور اس کا حصول ممکن بھی ہو۔
یعنی جو چیز ہبہ کے وقت حاضر نہ ہو، باب کی حدیث سے یہ مطلب اس طرح نکالا کہ قیدی اس وقت آنحضرت ﷺ کے پاس حاضر نہ تھے، مگر آپ نے ہوازن فتح کرنے والوں کو ہبہ کردئیے۔ بعضوں نے کہا ہبہ غائب سے مراد یہ ہے کہ موہوب لہ غائب ہو جیسے ہوازن کے لوگ اس وقت حاضر نہ تھے لیکن آپ نے ان کے قیدی ان کو ہبہ کر دئیے۔
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ اور حضرت مروان ؓ سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب قبیلہ ہوازن کا وفدآیا تو آپ لوگوں میں تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی جو اس کے شایان شان ہےپھر فرمایا: "’’ أمابعد، (لوگو!) تمہارے بھائی تائب ہوکر ہمارے پاس آئے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ میں ان کے قیدی انھیں واپس کردوں۔ تم میں سے جو کوئی خوشی سے پسند کرے وہ بھی ایسا کردے اور جو اپنا حق باقی رکھنا چاہتا ہو، وہ اس شرط پر ایسا کردے کہ جب آئندہ ہمارے پاس غنیمت کامال آئے تو ہم اس کو دے دیں گے۔‘‘ لوگوں نے کہا: ہم آپ کے فیصلے پر راضی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس روایت کے مطابق آئندہ مالِ غنیمت کا معاملہ مبہم تھا، گویا وہ غائب تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ آنے والا مال ہبہ کر دیا۔ اس میں کوئی چیز حاضر نہیں تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شے معلوم ہو اور اس کا حصول ممکن ہو تو غائب چیز ہبہ کی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ابن شہاب سے، ان سے عروہ نے ذکر کیا کہ مسور بن مخرمہ ؓ اور مروان بن حکم نے انہیں خبر دی کہ جب قبیلہ ہوازن کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا اور اللہ کی شان کے مطابق ثناءکے بعد آپ نے فرمایا : أما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں یہ ی بہتر سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کردئیے جائیں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے (قیدیوں کو) واپس کرناچاہے وہ واپس کردے اور جو یہ چاہے کہ انہیں ان کا حصہ ملے (تو وہ بھی واپس کردے) اور ہمیں اللہ تعالیٰ (اس کے بعد) سب سے پہلی جو غنیمت دے گا، اس میں سے ہم اسے معاوضہ دے دیں گے۔ لوگوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے (ان کے قیدی واپس کرکے) آپ کا ارشاد تسلیم کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
مسور بن مخرمہ ؓ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، زہری و قریشی ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بھانجے ہیں۔ ہجرت نبی کے دو سال بعد مکہ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ذی الحجہ 8 ھ میں مدینہ منورہ پہنچے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے حدیث کی سماعت کی اور ان کو یاد رکھا۔ بڑے فقیہ اور صاحب فضل اور دیندار تھے۔ عثمان ؓ کی شہادت تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ بعد شہادت مکہ میں منتقل ہوگئے اور معاویہ ؓ کی وفات تک وہیں مقیم رہے۔ انہوں نے یزید کی بیعت کو پسند نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی مکہ ہی میں رہے جب تک کہ یزید نے لشکر بھیجا اور مکہ کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت ابن زبیر ؓ مکہ ہی میں موجود تھے۔ چنانچہ اس محاصرہ میں مسور بن مخرمہ ؓ کو بھی منجنیق سے پھینکا ہوا ایک پتھر لگا۔ یہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس پتھر سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ یہ واقعہ ربیع الاول64ھ کی چاند رات کو ہوا۔ ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miswar bin Makhrama and Marwan (RA): When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet (ﷺ) he stood up amongst the people, Glorified and Praised Allah as He deserved, and said, "Then after: Your brethren have come to you with repentance and I see it logical to return to them their captives; so whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you like to stick to his share till we give him his right from the very first Fai (war booty) (1) which Allah will bestow on us, then (he can do so)." The people replied, "We do that (to return the captives) willingly as a favor for your sake."