Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The witnesses for the gifts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2607.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا کہ میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ حضرت عمر ہ بنت رواحہ ؓ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ لہذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں نے حضرت عمرہ بنت رواحہ ؓ کے بطن سے پیدا ہونے والے اس بیٹے کو کچھ عطیہ دیاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ !عمرہ کے کہنے کے مطابق آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا: ’’ آیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کیا کرو۔‘‘ حضرت نعمان ٍ کا بیان ہے کہ(یہ سن کر) میرے والد لوٹ آئے اور انھوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی۔
تشریح:
ہبہ دیتے ہوئے گواہ بنانا جائز ہے جیسا حضرت نعمان کی والدہ ماجدہ نے رسول اللہ ﷺ کو ہبہ پر گواہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے عدل و انصاف سے ہٹ کر عطیہ دینے پر گواہی نہیں دی اور نہ اسے منظور ہی فرمایا بلکہ آپ نے عدل و انصاف اور مساوات کا حکم دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2497
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2587
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2587
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2587
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے برسرمنبر کہا کہ میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا تو میری والدہ حضرت عمر ہ بنت رواحہ ؓ نے کہا: میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بناؤ۔ لہذا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: میں نے حضرت عمرہ بنت رواحہ ؓ کے بطن سے پیدا ہونے والے اس بیٹے کو کچھ عطیہ دیاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ !عمرہ کے کہنے کے مطابق آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت کیا: ’’ آیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل وانصاف کیا کرو۔‘‘ حضرت نعمان ٍ کا بیان ہے کہ(یہ سن کر) میرے والد لوٹ آئے اور انھوں نے دی ہوئی چیز واپس لے لی۔
حدیث حاشیہ:
ہبہ دیتے ہوئے گواہ بنانا جائز ہے جیسا حضرت نعمان کی والدہ ماجدہ نے رسول اللہ ﷺ کو ہبہ پر گواہ بنانے کا مطالبہ کیا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے عدل و انصاف سے ہٹ کر عطیہ دینے پر گواہی نہیں دی اور نہ اسے منظور ہی فرمایا بلکہ آپ نے عدل و انصاف اور مساوات کا حکم دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا حصین سے، وہ عامر سے کہ میں نے نعمان بن بشیر ؓ سے سنا وہ منبر پر بیان کررہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ ؓ (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ (حاضر خدمت ہوکر) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنالوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔
حدیث حاشیہ:
اس واقعہ سے ہبہ کے اوپر گواہ کرنا ثابت ہوا۔ نعمان ؓ کی والدہ نے آنحضرت ﷺ کو ہبہ پر گواہ بنانا چاہا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amir (RA): I heard An-Nu'man bin Bashir (RA) on the pulpit saying, "My father gave me a gift but 'Amra bint Rawaha (my mother) said that she would not agree to it unless he made Allah's Apostle (ﷺ) as a witness to it. So, my father went to Allah's Apostle (ﷺ) and said, 'I have given a gift to my son from 'Amra bint Rawaha, but she ordered me to make you as a witness to it, O Allah's Apostle! (ﷺ) ' Allah's Apostle (ﷺ) asked, 'Have you given (the like of it) to everyone of your sons?' He replied in the negative. Allah's Apostle (ﷺ) said, 'Be afraid of Allah, and be just to your children.' My father then returned and took back his gift."