قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا (بَابُ إِذَا وَهَبَ جَمَاعَةٌ لِقَوْمٍ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2607. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الحَكَمِ، وَالمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ: مَعِي مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا المَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ فِي المُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلاَءِ جَاءُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ، فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ»، فَقَالَ النَّاسُ: طَيَّبْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ: «إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِيهِ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ»، فَرَجَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ طَيَّبُوا، وَأَذِنُوا وَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا مِنْ سَبْيِ هَوَازِنَ، هَذَا آخِرُ قَوْلِ الزُّهْرِيِّ «يَعْنِي فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا»

مترجم:

2607.

حضرت مروان بن حکم ؓ اور مسور بن مخرمہ  ؓ سےروایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس ہوازن کا وفد مسلمان ہوکر آیا تو انھوں نے آپ سے درخواست کی کہ انھیں اپنے قیدی اور مال واپس کردیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ تم دیکھ رہے ہو اور سچی بات مجھے بہت محبوب ہے۔ تم دو باتوں میں سے ایک اختیار کرلو: قیدی لے لو یا مال کاانتخاب کرلو۔ اس سلسلے میں میں نے تمہارا کافی انتظار کیا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ طائف سے لوٹ کر آئے تو دس سے زیادہ راتیں ان کا انتظار کیا، چنانچہ ان لوگوں پر واضح ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ ایک ہی چیز واپس کریں گے۔ انھوں نے عرض کیا: ہم اپنے قیدیوں کو لیناچاہتے ہیں۔ (ان کا فیصلہ سن کر) آپ ﷺ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’أمابعد!تمہارے یہ بھائی ہمارے پاس مسلمان ہوکر آئے ہیں اور میں ان کو ان کے قیدی واپس کرنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جو راضی خوشی قیدی لوٹانا چاہے وہ لوٹا دے اور چاہے کہ اپنے حصے پر قائم رہے حتیٰ کہ ہم اسے پہلی غنیمت سے حصہ دیں جو اللہ ہمیں آئندہ دے تو وہ ایسا کرے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہم بخوشی انھیں قیدی واپس کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین)سے فرمایا: ’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دے دی اور کس نے اجازت نہیں دی، اس لیے اب تم واپس چلے جاؤ، حتیٰ کہ ہمارے پاس تمہارے نمائندے تمہاری رائے پہنچائیں۔‘‘ چنانچہ وہ لوگ لوٹ گئے اور ان کے نمائندگان نے ان سے بات کی، پھر وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ سب لوگ راضی خوشی قیدیوں کو واپس کرنے پر تیار ہیں۔ یہ وہ خبر ہے جوقبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں پہنچی ہے۔ (امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ) یہ آخری قول امام زہری  ؒ کا ہے، یعنی فهذا الذي بلغنا