Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Who is to be given the gift first?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2614.
ام المومنین حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک لونڈی آزاد کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ تم اپنے ننھیال کو دیتیں تو تمھیں زیادہ ثواب ہوتا۔‘‘
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تحائف کے اولین حق دار عزیز و اقارب اور رشتہ دار ہیں، نیز اگر کوئی رشتے دار محتاج ہو تو غلام آزاد کرنے کی بجائے انہیں بطور عطیہ دینے میں زیادہ فضیلت ہے، چنانچہ سنن کبریٰ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہتر ہوتا اگر تم اپنے بھائی کی بیٹی جو بکریاں چراتی ہے اس کا بوجھ ہلکا کرتی۔‘‘ یعنی یہ لونڈی آزاد کرنے کے بجائے اپنے بھائی کو دے دیتیں تاکہ وہ ان کی خدمت کرتی۔ (فتح الباري:269/5، والسنن الکبریٰ للنسائي:181/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2504
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2594
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2594
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2594
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
ام المومنین حضرت میمونہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک لونڈی آزاد کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ تم اپنے ننھیال کو دیتیں تو تمھیں زیادہ ثواب ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تحائف کے اولین حق دار عزیز و اقارب اور رشتہ دار ہیں، نیز اگر کوئی رشتے دار محتاج ہو تو غلام آزاد کرنے کی بجائے انہیں بطور عطیہ دینے میں زیادہ فضیلت ہے، چنانچہ سنن کبریٰ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بہتر ہوتا اگر تم اپنے بھائی کی بیٹی جو بکریاں چراتی ہے اس کا بوجھ ہلکا کرتی۔‘‘ یعنی یہ لونڈی آزاد کرنے کے بجائے اپنے بھائی کو دے دیتیں تاکہ وہ ان کی خدمت کرتی۔ (فتح الباري:269/5، والسنن الکبریٰ للنسائي:181/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور بکر بن مضر نے عمروبن حارث سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ کے غلام کریب سے (بیان کیا کہ) نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ میمونہ ؓ نے اپنی ایک لونڈی آزاد کی تو رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اگر وہ تمہارے ننیال والوں کو دی جاتی تو تمہیں زیادہ ثواب ملتا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ تحائف کے اولین حقدار عزیز و اقرباء اور رشتہ دار ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Maimuna, the wife of the Prophet (ﷺ) that she manumitted her slave-girl and the Prophet (ﷺ) said to her, "You would have got more reward if you had given the slave-girl to one of your maternal uncles."