تشریح:
(1) قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا فروخت کرنے والے کی طرف سے کچھ نہ کچھ سہولت کی امید ضرور تھی، چنانچہ بیچنے والے کی طرف سے تھوڑی سی سہولت فروخت کردہ چیز کے بعض اجزاء میں رجوع کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اقدام کو عود في الصدقة کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ (2) اگر صدقہ کیا ہوا مال بطور وراثت حصے میں آ جائے تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ لینا جائز ہے۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے وہ گھوڑا جہاد کے لیے وقف نہیں کیا تھا کیونکہ وقف کی ہوئی چیز کی خریدوفروخت ممنوع ہوتی ہے بلکہ اس کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ حدیث کے الفاظ سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ وقف نہیں بلکہ ہبہ کیا تھا۔ (فتح الباري:291/5)