تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ شادی کی پہلی رات کے لیے کسی سے ادھار لباس لینا باعث ملامت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں بھی یہ سلسلہ رائج تھا کہ ہنگامی صورت کے پیش نظر لباس ادھار لیا جاتا تھا۔ (2) اس حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کی تواضع اور انکساری کا بھی پتہ چلتا ہے، نیز ہمارے ہاں شادی کی پہلی رات کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے کا لباس تیار کیا جاتا ہے، اس حدیث کے پیش نظر یہ مستحسن اقدام نہیں بلکہ وقتی ضرورت کے لیے کسی سے ادھار لے لیا جائے۔ اگر مستقل کوئی لباس تیار کرنا ہے تو وہ گراں بھی نہ ہو اور زیادہ بھاری بھر کم بھی نہیں ہوتا کہ وہ آئندہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہو، وہ صرف صندوق کی زینت بن کر نہ رہ جائے۔