تشریح:
1۔ ان احادیث کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی ایک غرض تو پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کو ثابت کرنا ہے اور دوسری یہ کہ ضرورت کے وقت ہاتھ دھوئے بغیر بھی پانی میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور چلو میں پانی نکال سکتے ہیں، اگرچہ شریعت کی نظر میں پسند یدہ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ دھوئے جائیں پھر انھیں پانی میں ڈالا جائے۔
2۔ امام بخاری ؒ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چار احادیث نقل کی ہیں، پہلی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ غسل کرتے وقت ہمارے ہاتھ اس برتن میں یکے بعد دیگرے پڑتے تھے اور ظاہر ہے کہ ایسا بحالت جنابت ہوتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجاست حکمی (جنابت) کا پانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن اس روایت میں غسل جنابت کی صراحت نہ تھی۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ کا یہ غسل نظافت یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ہو، اس لیے دوسری روایت پیش فرمائی جس میں صراحت ہے کہ یہ غسل، غسل جنابت ہوتا تھا، لیکن اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھو لیتے اور یہ اس وقت ہوتا تھا جب آپ کو ہاتھ پر نجاست کا شبہ ہوتا، اگر ایسا ہو تو دھو کر برتن میں ڈالنا چاہیے، اگر کوئی شبہ نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ ہاتھوں پر کوئی دوسری نجاست نہیں تو بغیر دھوئے بھی انھیں برتن میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ابتداءً یہ عمل اس احتیاط پر مبنی ہو کہ دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو۔ تیسری روایت میں برتن اور غسل جنابت دونوں کا یکجا ذکر ہے۔ ان تینوں روایات سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ روایات حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ اس طرح بحالت جنابت پانی لینے میں حضرت عائشہ ؓ کی کسی خصوصیت کو دخل ہو۔ امام بخاری ؒ نے چوتھی روایت لا کر اس شبہے کا ازالہ کر دیا، کیونکہ اس میں حضرت عائشہ ؓ کا ذکر نہیں ہے۔ بہرحال امام بخاری کا منشا یہ ہے کہ یہ تمام احادیث مطلق ہیں اور ان کا تعلق جنابت سے ہے، پانی لینے کی کوئی بھی صورت ہو اگر ہاتھ پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہوئی نہ ہو تو غسل سے قبل پانی یا برتن میں ہاتھ ڈالنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی نجاست لگی ہو تو اسے غسل سے قبل ضرور دھو لینا چاہیے، اگر اسے دھوئے بغیر پانی یا برتن میں ہاتھ ڈال دیا تو اس سے پانی نجس ہو جائے گا۔