قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ إِذَا عَدَّلَ رَجُلٌ أَحَدًا فَقَالَ: لاَ نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: أَوْقَالَ: مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا

2637.  حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ النُّمَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، وَقَالَ: اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ المُسَيِّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا حِينَ - قَالَ لَهَا أَهْلُ الإِفْكِ: مَا قَالُوا: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَأُسَامَةَ حِينَ اسْتَلْبَثَ الوَحْيُ يَسْتَأْمِرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ، فَأَمَّا أُسَامَةُ فَقَالَ: أَهْلُكَ وَلاَ نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا، وَقَالَتْ بَرِيرَةُ: إِنْ رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا أَغْمِصُهُ أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ، فَتَأْكُلُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَعْذِرُنَا فِي رَجُلٍ بَلَغَنِي أَذَاهُ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْ أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا، وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

یا یہ کہے کہ میں اس کے متعلق صرف اچھی بات جانتا ہوں۔ تعدیل اور تزکیہ کے معنی کسی شخص کو نیک اور سچا اور مقبول الشہادۃ بتلانا۔ بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ الفاظ تعدیل کے لیے کافی نہیں ہیں۔ جب تک صاف یوں نہ کہے کہ وہ اچھا شخص ہے اور عادل ہے۔ اسلام نے مقدمات میں بنیادی طور پر گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیوں کہ مقدمات میں فیصلے کی بنیاد گواہ ہی ہوتے ہیں۔ گواہوں کی تعدیل کے لیے ایک تو یہی راستہ ہے کہ حاکم کی عدالت میں کوئی معتمد آدمی اس گواہ کی عدالت اور نیک چلنی کی گواہی دے۔ دوسرا یہ کہ حکومت کے خفیہ آدمی اس گواہ کے متعلق پوری معلومات حاصل کرکے حکومت کو مطلع کریں۔ گواہی میں جھوٹ بولنے والوں کی برائیوں میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیاگیا ہے۔

2637.

حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر  ؒ ، سعید بن مسیب  ؒ ، علقمہ بن وقاص  اور عبید اللہ بن عبد اللہ  ؒ نے حضرت عائشہ  ؓ کے واقعے کے متعلق بتایا۔ ان کی کچھ باتیں دوسری بیان کردہ باتوں کی تصدیق کرتی ہیں واقعہ یہ ہے کہ جب بہتان طرازوں نے حضرت عائشہ  ؓ پر تہمت لگائی تو رسول اللہ ﷺ پر وحی آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی  ؓ اور حضرت اسامہ  ؓ کو اپنی اہلیہ (حضرت عائشہ  ؓ) کو چھوڑنے کے متعلق مشورے کے لیے بلایا تو حضرت اسامہ  ؓ نے کہا: ہم تو ان کے متعلق خیرو بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، بہر حال وہ آپ کی بیوی ہیں حضرت بریرہ  ؓ نے کہا : میں نے تو ان میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو ان کی شان کے خلاف ہو، (زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ) وہ ایک نوخیز (اور بھولی بھالی) لڑکی ہیں، اہل خانہ کا آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں جسے گھر کی پالتو بکری آکر کھاجاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسے شخص کے متعلق کون مجھ سے عذر خواہی کرے گاجو میری بیوی کے متعلق مجھے اذیت پہنچاتا ہے؟اللہ کی قسم! میں نے اپنی بیوی کے متعلق خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا۔ اور انھوں نے اس سلسلے میں جس شخص کا ذکر کیا ہے اس میں بھی سوائے خیر کے میں اور کچھ نہیں جانتا۔‘‘