تشریح:
(1) تعديل کے معنی ہیں کہ کسی شخص کے متعلق صفائی دی جائے، یعنی وہ عادل ہے اور گواہی دینے کے قابل ہے۔ یہ شخص کسی معاملے میں مہتم نہیں اور نہ پہلے کسی جرم میں پکڑا گیا ہے۔ اس کی صفائی دینے کے متعلق اختلاف ہے کہ کس قسم کے الفاظ ادا کیے جائیں، کیا اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہم بھلا آدمی خیال کرتے ہیں؟ امام بخاری ؒ کا رجحان ہے کہ نیک چلن بیان کرنے کے لیے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ تعدیل بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی جائے کہ یہ عادل شخص ہے اور اس کی گواہی قبول ہے۔ اسلام نے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت گواہوں کے عادل اور نیک چلن ہونے پر بہت زور دیا ہے کیونکہ فیصلے کی بنیاد گواہ ہوتے ہیں۔ ان کی صفائی کا یہی طریقہ ہے کہ عدالت میں کوئی قابل اعتماد آدمی ان گواہوں کی نیک سیرتی بیان کر دے۔ دوسرا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت خود گواہ کے متعلق اپنے ذرائع استعمال کرے کہ وہ کیسا آدمی ہے، پھر عدالت کو اس کے متعلق مطلع کیا جائے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو نیک چلن بتانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ عمومی طور پر اس کی نیک سیرتی سے مطلع کر دیا جائے جیسا کہ حضرت اسامہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق بیان کیا تھا ویسے بھی انسان کسی کے متعلق اپنے علم کے مطابق ہی خبر دے سکتا ہے۔ حقیقت حال سے کسی کو کون مطلع کر سکتا ہے کیونکہ باطنی امور کا علم تو اللہ کے پاس ہے، اس کے سوا اور کوئی نہیں جان سکتا۔