تشریح:
(1) اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ قبول شہادت کے لیے عدالت شرط ہے، البتہ صفتِ عدالت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدالت میں انسان کے ظاہر کو دیکھا جائے گا بشرطیکہ اس کا کوئی عیب مشہور نہ ہو، باطنی معاملات پر عدالت کا دارومدار ہرگز نہیں۔ اس سلسلے میں جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ عدالت، اسلام کے علاوہ ایک سے زائد صفات کا نام ہے، یعنی وہ شرعی احکام کا پابند ہو، مستحبات پر عمل کرنے والا ہو، نیز شریعت کے ناپسندیدہ اور حرام کاموں سے بچنے والا ہو۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان کے لیے عدالت کی یہ شرط کافی ہے کہ اس کے ظاہر کو دیکھا جائے اس کے باطن کی کھوج نہ لگائی جائے۔ (3) حضرت مالک بن دخیشن ؓ کا ظاہری چال چلن نفاق پر مبنی تھا لیکن وحی نے ان کے ظاہر کی تردید کر کے ان کے ایمان کی تصدیق کر دی۔ اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اس لیے فیصلہ کرتے وقت ظاہر کو دیکھا جائے گا۔ گواہ بظاہر اچھا ہے تو اس کے بیان کو تسلیم کیا جائے گا اور اگر ظاہر میں برا ہے تو اس کی گواہی رد کر دی جائے گی۔