تشریح:
(1) پہلے جنازے کے متعلق لوگوں کی زبان پر کلمۂ خیر تھا کہ اچھا آدمی تھا، کسی سے ظلم و زیادتی نہیں کرتا تھا جبکہ دوسرے جنازے کے متعلق لوگوں کا تبصرہ اچھا نہیں تھا کہ یہ معاشرے کا برا فرد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں قسم کے تبصرے سن کر فرمایا تھا: ’’واجب ہو گئی۔‘‘ یعنی نیک آدمی کے لیے جنت اور برے کے لیے جہنم واجب ہو گئی، پھر آپ نے وضاحت فرمائی: ’’امتِ مسلمہ کے افراد زمین پر اللہ کی گواہی دینے والے ہیں۔‘‘ اگر ان کا اجتماعی فیصلہ کسی کے اچھے یا برے ہونے سے متعلق ہے تو حقیقت میں وہی اللہ کا فیصلہ ہے۔ (2) یہ فیصلہ ان لوگوں کا معتبر ہو گا جو اس زمین میں شریعت کے تقاضوں کو سمجھنے اور پورا کرنے والے ہوں۔ چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے فیصلے کا اعتبار نہیں ہو گا۔ (3) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کسی شخص کی نیک سیرتی بیان کرنے میں رائے عامہ کو بہت دخل ہے جیسا کہ اس حدیث میں رائے عامہ کی تصدیق کی گئی ہے۔ واللہ أعلم