تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ دودھ کا رشتہ غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے کہ جو لڑکی کسی کا دودھ پی لے تو اس کا بیٹا اس کا بھائی نہیں بن جاتا بلکہ رضاعت اس عمر میں ثابت ہو گی جب بچہ دودھ کے علاوہ اور کوئی چیز استعمال نہ کرتا ہو، پھر دیگر احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ کم از کم پانچ مرتبہ دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ اگر کسی عورت نے یونہی روتے ہوئے بچے کو چپ کرانے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ میں دے دی تو اس سے رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ بہرحال ان احادیث کو پیش کرنے سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نسب، رضاعت اور موت قدیم شہرت سے ثابت ہوں گی۔ انہیں ثابت کرنے کے لیے گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔ (2) ان احادیث سے نسب اور رضاعت کا ثبوت ملتا ہے اور موت قدیم کا ثبوت بحکم الحاق ثابت ہوتا ہے۔ ان احادیث میں بیان کی جانے والی رضاعت کو شہرت کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا ہے۔ (3) واضح رہے کہ عنوان میں موت قدیم کا ذکر ہے کیونکہ تازہ موت شہرت سے ثابت نہیں ہو گی۔ اس کے لیے شہادت ضروری ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ اپنی بہنوں کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے پٹواری کے کاغذات میں انہیں مردہ ظاہر کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ زندہ ہوتی ہیں، اس لیے عنوان میں موتِ قدیم کا ذکر ہے۔