باب : شب عروسی میں دلہن کے لیے کوئی چیز عاریتاً لینا
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: To borrow something for the bride)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2648.
عبدالوحد بن ایمن سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میرے والد (حضرت ایمن) بیان کرتے ہیں کہ میں صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ کے ہاں گیا تو انھوں نے روئی کا موٹا کرتا پہن رکھا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میری اس لونڈی کی طرف ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو یہ گھر میں اس قسم کا لباس پہننے سے نفرت کرتی ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں میرے پاس اسی طرح کا ایک کرتا تھا۔ مدینہ طیبہ میں جب بھی کسی عورت کو آراستہ کرنا ہوتا تو وہ مجھے پیغام بھیج کر منگوالیتی تھیں۔
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ شادی کی پہلی رات کے لیے کسی سے ادھار لباس لینا باعث ملامت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں بھی یہ سلسلہ رائج تھا کہ ہنگامی صورت کے پیش نظر لباس ادھار لیا جاتا تھا۔ (2) اس حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کی تواضع اور انکساری کا بھی پتہ چلتا ہے، نیز ہمارے ہاں شادی کی پہلی رات کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے کا لباس تیار کیا جاتا ہے، اس حدیث کے پیش نظر یہ مستحسن اقدام نہیں بلکہ وقتی ضرورت کے لیے کسی سے ادھار لے لیا جائے۔ اگر مستقل کوئی لباس تیار کرنا ہے تو وہ گراں بھی نہ ہو اور زیادہ بھاری بھر کم بھی نہیں ہوتا کہ وہ آئندہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہو، وہ صرف صندوق کی زینت بن کر نہ رہ جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2536
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2628
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2628
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2628
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
عبدالوحد بن ایمن سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میرے والد (حضرت ایمن) بیان کرتے ہیں کہ میں صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ کے ہاں گیا تو انھوں نے روئی کا موٹا کرتا پہن رکھا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میری اس لونڈی کی طرف ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو یہ گھر میں اس قسم کا لباس پہننے سے نفرت کرتی ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں میرے پاس اسی طرح کا ایک کرتا تھا۔ مدینہ طیبہ میں جب بھی کسی عورت کو آراستہ کرنا ہوتا تو وہ مجھے پیغام بھیج کر منگوالیتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ شادی کی پہلی رات کے لیے کسی سے ادھار لباس لینا باعث ملامت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں بھی یہ سلسلہ رائج تھا کہ ہنگامی صورت کے پیش نظر لباس ادھار لیا جاتا تھا۔ (2) اس حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کی تواضع اور انکساری کا بھی پتہ چلتا ہے، نیز ہمارے ہاں شادی کی پہلی رات کے لیے ہزاروں اور لاکھوں روپے کا لباس تیار کیا جاتا ہے، اس حدیث کے پیش نظر یہ مستحسن اقدام نہیں بلکہ وقتی ضرورت کے لیے کسی سے ادھار لے لیا جائے۔ اگر مستقل کوئی لباس تیار کرنا ہے تو وہ گراں بھی نہ ہو اور زیادہ بھاری بھر کم بھی نہیں ہوتا کہ وہ آئندہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہو، وہ صرف صندوق کی زینت بن کر نہ رہ جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ قطر (یمن کا ایک دبیز کھردرا کپڑا) کی قمیص قیمتی پانچ درہم کی پہنے ہوئے تھیں۔ آپ نے (مجھ سے) فرمایا۔ ذرا نظر اٹھاکر میری اس لونڈی کو تو دیکھ۔ اسے گھر میں بھی یہ کپڑے پہننے سے انکار ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں میرے پاس اسی کی ایک قمیص تھی۔ جب کوئی لڑکی دلہن بنائی جاتی تو میرے یہاں آدمی بھیج کر وہ قمیص عاریتاً منگا لیتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اب ہمارے گھروں میں جس طرح کے کپڑے پہننے سے ہماری باندیوں کو انکار ہے رسول کریم ﷺ کے زمانے میں ہمارے ایسے کپڑے لوگ شادیوں میں استعمال کے لیے عاریتاً لے جایا کرتے تھے۔ اس سے کپڑوں کا عاریتاً لے جانا ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aiman (RA): I went to 'Aisha (RA) and she was wearing a coarse dress costing five Dirhams. 'Aisha (RA) said, "Look up and see my slave-girl who refuses to wear it in the house though during the lifetime of Allah's Apostle (ﷺ) I had a similar dress which no woman desiring to appear elegant (before her husband) failed to borrow from me."