تشریح:
(1) اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا جو قریش کے ایک بااثر قبیلے بنو مخزوم سے تعلق رکھتی تھی۔ (2) چوری کرنے سے انسان کی ظاہری حیثیت مجروح ہو جاتی ہے اور وہ گواہی دینے کے قابل نہیں رہتا، لیکن چور جب توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لے تو اس سے چوری کا دھبہ دور ہو جاتا ہے، پھر اس کی گواہی مسترد نہیں کی جاتی۔ امام بخاری ؒ نے تہمت لگانے والے کو چور سے ملایا ہے کیونکہ ان کے نزدیک دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ (3) امام طحاوی ؒ نے لکھا ہے: چور جب چوری کے بعد توبہ کر لے تو اس کی گواہی قبول کرنے پر علماء کا اتفاق ہے، نیز چور کا ہاتھ کاٹ دینا ہی اس کی توبہ ہے۔ جب ہاتھ کٹ گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی توبہ قبول ہوئی، لہذا گواہی بھی قبول ہو گی۔ واللہ أعلم