تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مسئلہ موالات بیان کیا ہے، یعنی اعضائے وضو اور غسل کو پے درپے دھونا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جواز تفریق ہی امام شافعی ؒ کا قول جدید ہے جس کے لیے بایں طور استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء کا دھونا فرض کیا ہے جو شخص بھی اس امر کی تعمیل کرے گا وہ فرض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائےگا، خواہ تفریق سے کرے یا موالات سے۔ امام بخاری ؒ نے اس کی تائید حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے بھی کر دی ہے۔ یہی موقف ابن مسیب، عطاء اور ایک جماعت کا ہے۔ امام مالک ؒ اور حضرت ربیعہ ؒ کہتے ہیں کہ جو دانستہ تفریق کرے گا، اس پر وضو اور غسل کا اعادہ ہو گا اور جو بھول کر ایسا کرے گا، اسے دوبارہ وضو یا غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔ امام مالک ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر تفریق تھوڑے وقفے کی ہے تو بنا کرے، اگر لمبے وقفے کی ہے تو اعادہ کرے۔ امام اوزاعی اور قتادہ کہتے ہیں کہ اگر تفریق اس قدر ہے کہ اعضاء خشک ہو جائیں تو اعادہ ہے۔ بصورت دیگر نہیں۔ امام نخعی ؒ نے غسل میں تو تفریق کی اجازت دی ہے، مگر وضو میں نہیں۔ مذاہب کی یہ تفصیل ابن منذر ؒ نے بیان کی ہے۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ جس نے اس معاملے میں اعضاء کے خشک ہونے کی حد كو فاصل قراردیا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ (محلی ابن حزم: 69/2)
2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آغاز غسل میں وضو فرمایا، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، پھر غسل فرمایا اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے۔ اس سے معلوم ہوا اعضائے وضو میں موالات ضروری نہیں، بلکہ تفریق جائز ہے۔ اس پر یہ اعتراض ہو تا ہے کہ حدیث اور اثر میں صرف وضو کے متعلق تفریق کا جواز ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضو کے ساتھ غسل کو بھی شامل فرمایا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ موالات و تفریق کے متعلق وضو اور غسل کی حیثیت یکساں ہے جو حضرات موالات کے قائل ہیں، مثلاً: امام مالک ؒ وغیرہ وہ وضو اور غسل دونوں میں موالات کو شرط قراردیتے ہیں اور جن کے نزدیک موالات ضروری نہیں، وہ دونوں جگہ اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ صرف امام نخعی ؒ نے تفریق و موالات کے سلسلے میں وضو اور غسل میں فرق کیا ہے۔
3۔ حافظ ابن حزم ؒ نے بھی اس کے متعلق مفصل بحث کی ہے، انھوں نے بھی وضو اور غسل میں تفریق کو جائز قراردیا ہے، خواہ درمیان میں کتنا ہی وقفہ ہو جائے اور اس کو امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعی ؒ ، امام اوزاعی ؒ اور سفیان ثوری ؒ کا مذہب لکھا ہے۔ پھر احادیث وآثار ذکر کر کے امام مالک ؒ کے موقف کی تردید کی ہے۔ (فتح الباري:487/1) علامہ طحاوی ؒ نے اس کے متعلق بڑی عمدۃ بات لکھی ہے کہ اعضاء کا خشک ہو جانا حدث نہیں کہ اسے ناقض وضو قراردیا جائے۔ اگر وضو کرنے کے بعد اعضاء خشک ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو دوران وضو میں اعضاء کا خشک ہو جانا کیونکر ناقض وضو ہو سکتا ہے۔ (محلی ابن حزم: 68/1)