قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ شَهَادَةِ الأَعْمَى وَأَمْرِهِ وَنِكَاحِهِ وَإِنْكَاحِهِ وَمُبَايَعَتِهِوَقَبُولِهِ فِي التَّأْذِينِ وَغَيْرِهِ، وَمَا يُعْرَفُ بِالأَصْوَاتِ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَأَجَازَ شَهَادَتَهُ قَاسِمٌ، وَالحَسَنُ، وَابْنُ سِيرِينَ، وَالزُّهْرِيُّ، وَعَطَاءٌ وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: «تَجُوزُ شَهَادَتُهُ إِذَا كَانَ عَاقِلًا» وَقَالَ الحَكَمُ: «رُبَّ شَيْءٍ تَجُوزُ فِيهِ» وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: «أَرَأَيْتَ ابْنَ عَبَّاسٍ لَوْ شَهِدَ عَلَى شَهَادَةٍ أَكُنْتَ تَرُدُّهُ؟» وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَبْعَثُ رَجُلًا إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ أَفْطَرَ، وَيَسْأَلُ عَنِ الفَجْرِ، فَإِذَا قِيلَ لَهُ طَلَعَ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَعَرَفَتْ صَوْتِي، قَالَتْ: «سُلَيْمَانُ ادْخُلْ، فَإِنَّكَ مَمْلُوكٌ مَا بَقِيَ عَلَيْكَ شَيْءٌ» وَأَجَازَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ شَهَادَةَ امْرَأَةٍ مُنْتَقِبَةٍ

2656. حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ بِلاَلًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ - أَوْ قَالَ حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ - ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ» وَكَانَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ رَجُلًا أَعْمَى، لاَ يُؤَذِّنُ حَتَّى يَقُولَ لَهُ النَّاسُ: أَصْبَحْتَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی دوسرے کا نکاح کرانا ، یا اس کی خرید و فروخت یا اس کی اذان وغیرہ جیسے امامت اور اقامت بھی اندھے کی درست ہے اسی طرح اندھے کی گواہی ان تمام امور میں جو آواز سے سمجھے جاسکتے ہوں ۔ قاسم ، حسن بصری ، ابن سیرین ، زہری اور عطاءنے بھی اندھے کی گواہی جائز رکھی ہے ۔ امام شعبی نے کہا کہ اگر وہ ذہین اور سمجھدار ہے تو اس کی گواہی جائز ہے ۔ حکم نے کہا کہ بہت سی چیزوں میں اس کی گواہی جائز ہوسکتی ہے ۔ زہری نے کہا اچھا بتاو اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کسی معاملہ میں گواہی دیں تو تم اسے رد کرسکتے ہو ؟ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ ( جب نابینا ہوگئے تھے تو ) سورج غروب ہونے کے وقت ایک شخص کو بھیجتے ( تاکہ آبادی سے باہر جاکر دیکھ آئیں کہ سورج پوری طرح غروب ہوگیا یا نہیں اور جب وہ آ کر غروب ہونے کی خبر دیتے تو ) آپ افطار کرتے تھے ۔ اسی طرح آپ طلوع فجر کے متعلق پوچھتے اور جب آپ سے کہا جاتا کہ ہاں فجر طلوع ہوگئی تو دور رکعت ( سنت فجر ) نماز پڑھتے ۔ سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضری کے لیے میں نے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے میری آواز پہچان لی اور کہا سلیمان اندر آجاو ۔ کیوں کہ تم غلام ہو ۔ جب تک تم پر ( مال کتابت میں سے ) کچھ بھی باقی رہ جائے گا ۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے نقاب پوش عورت کی گواہی جائز قرار دی تھی ۔ تشریح : آثار مذکورہ میں سے قاسم کے اثر کو سعید بن منصور نے اور حسن اور ابن سیرین اور زہری کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور عطاءکے ثر کو اثرم نے وصل کیا۔ قسطلانی نے کہا مالکیہ کا یہی مذہب ہے کہ اندھے کی گواہی قول میں اور بہرے کی گواہی فعل میں درست ہے۔ اور گواہی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ آنکھوں والا اور کانوں والا ہو۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کو عبدالرزاق نے وصل کیا، اس آدمی کا نام معلوم نہیں ہوا۔ اس اثر سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ اندھا اپنے معاملات میں دوسرے آدمی پر اعتماد کرسکتا ہے حالانکہ وہ اس کی صورت نہیں دیکھتا۔ سلیمان بن یسار مذکور حضرت عائشہؓ کے غلام تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ غلام سے پردہ کرنا ضروری نہیں جانتی تھیں خواہ اپنا غلام ہو یا کسی اور کا۔ سلیمان بن یسار مکاتب تھے ان کا بدل کتابت ابھی ادا نہیں ہوا تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جب تک بدل کتابت میں سے ایک پیسہ بھی تجھ پر باقی ہے تو غلام ہی سمجھا جائے گا۔ نقاب ڈالنے والی عورت کا نام معلوم نہیں ہوا۔ ( وحیدی )

2656.

حضرت عبداللہ بن عمر  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بلال رات کو اذان کہتے ہیں، اس لیے تم سحری کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ دوسری اذان دی جائے۔‘‘ یافرمایا: ’’حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوب  ؓ کی اذان سنو۔‘‘ ابن مکتوم  ؓ نابینے شخص تھے، وہ اذان نہ دیتے حتیٰ کہ لوگ ان سے کہتے: صبح ہوگئی ہے۔