تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ طریقہ تھا کہ حضرت بلال ؓ فجر کی پہلی اذان دیتے جبکہ سحری کھانے پینے کے لیے کافی وقت ہوتا تھا، پھر طلوع فجر کے عام وقت پر حضرت ابن ام مکتوم ؓ اذان دیتے اور ان کی آواز سے کھانا پینا بند کر دیا جاتا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے اور کھانا پینا چھوڑ دیتے، حالانکہ وہ نابینا شخص تھے۔ اس سے بھی نابینے کی گواہی ثابت کرنا مقصود ہے۔ اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو نابینے کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ بہرحال نابینے شخص کو جس طریقے سے بھی کسی چیز کا علم ہو جائے اس کے متعلق وہ گواہی دے سکتا ہے، اس کے لیے مشاہدے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ابن ام مکتوم ؓ کے نابینا ہونے کے باوجود ان کا اذان دینا قبول کیا گیا۔