تشریح:
(1) عورتوں کے معاملے میں ہمارا معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ مغربی تہذیب سے متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ عورت زندگی کے ہر پہلو میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اہل ہے اور گواہی دینے میں مرد کے برابر حیثیت رکھتی ہے جبکہ بعض لوگ اسے پاؤں کے جوتے کی حیثیت دیتے ہیں، یعنی ان کے ہاں معاشرتی طور پر وہ کسی قسم کی گواہی دینے کے قابل نہیں ہے۔ اعتدال پر مبنی موقف یہ ہے کہ مالی معاملات اور حدود و قصاص میں اکیلی عورت کی گواہی قبول نہیں ہو گی، بلکہ ایک مرد کے مقابلے میں عورت کی نصف گواہی کا اعتبار ہو گا، البتہ عورتوں کے مخصوص معاملات، مثلاً: حیض، ولادت، حضانت (بچوں کی پرورش) اور رضاعت (بچوں کو دودھ پلانے) میں اس کی گواہی قابل قبول ہو گی۔ (2) امام بخاری ؒ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف ہے۔