قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ شَهَادَةِ الإِمَاءِ وَالعَبِيدِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ أَنَسٌ: «شَهَادَةُ العَبْدِ جَائِزَةٌ إِذَا كَانَ عَدْلًا» وَأَجَازَهُ شُرَيْحٌ، وَزُرَارَةُ بْنُ أَوْفَى وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: «شَهَادَتُهُ جَائِزَةٌ إِلَّا العَبْدَ لِسَيِّدِهِ» وَأَجَازَهُ الحَسَنُ، وَإِبْرَاهِيمُ فِي الشَّيْءِ التَّافِهِ وَقَالَ شُرَيْحٌ: «كُلُّكُمْ بَنُو عَبِيدٍ وَإِمَاءٍ»

2659. حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الحَارِثِ، ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ الحَارِثِ، أَوْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ أَنَّهُ تَزَوَّجَ أُمَّ يَحْيَى بِنْتَ أَبِي إِهَابٍ، قَالَ: فَجَاءَتْ أَمَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: قَدْ أَرْضَعْتُكُمَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، قَالَ: فَتَنَحَّيْتُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: «وَكَيْفَ وَقَدْ زَعَمَتْ أَنْ قَدْ أَرْضَعَتْكُمَا» فَنَهَاهُ عَنْهَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ غلام اگر عادل ہے تو اس کی گواہی جائزہے ، شریح اور زرارہ بن اوفیٰ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے ۔ ابن سیرین نے کہا کہ اس کی گواہی جائز ہے ، سوا اس صورت کے جب غلام اپنے مالک کے حق میں گواہی دے ( کیوں کہ اس میں مالک کی طرف داری کا احتمال ہے ) حسن اور ابراہیم نے معمولی چیزوں میں غلام کی گواہی کی اجازت دی ہے ۔ قاضی شریح نے کہا کہ تم میں سے ہر شخص غلاموں اور باندیوںکی اولاد ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم سب اللہ کے لونڈی غلام ہو اور اللہ ہی کے لونڈی غلاموں کی اولاد ہو، اس لیے کسی کو کسی پر فخر کرنا جائز نہیں ہے ۔ ہمارے امام احمد بن حنبل نے اسی کے موافق حکم دیا ہے کہ لونڈی غلام کی جب وہ عادل اور ثقہ ہوں، گواہی مقبول ہے۔ مگر ائمہ ثلاثہ نے اس کو جائز نہیں رکھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ لونڈی غلاموں کی شہادت جب وہ عادل ثقہ ہو ںثابت فرمارہے ہیں۔ ترجمۃ الباب میں نقل کردہ آثار سے آپ کا مدعا بخوبی ثابت ہوتا ہے۔

2659.

حضرت عقبہ بن حارث  ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابواہاب سے شادی کرلی تو ایک سیاہ فام لونڈی آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے جب نبی کریم ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا، چنانچہ میں بھی اس طرف سے ہٹ گیا۔ پھر میں نے دوبارہ آپ سے اسی بات کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ اس عورت کا دعویٰ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے؟‘‘ پھرآپ نے حضرت عقبہ  ؓ کو اس رشتے سے روک دیا۔