تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جس معاملے میں ایک ہاتھ سے کام نہیں چلتا، بلکہ دونوں ہاتھ استعمال ہوتے ہیں، وہاں گھٹیا کام بائیں ہاتھ سے متعلق ہو گا۔ جیسا کہ استنجے کا معاملہ ہے، اس میں نجاست کا ازالہ بائیں ہاتھ سے ہو گا، دائیں ہاتھ سے اس کی شرافت کے پیش نظر پانی ڈالنے کا کام لیا جائے گا۔ اس مقام پر اعتراض کیا گیا ہے کہ دعوی عام ہے، لیکن جس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے وہ خاص ہے، یعنی اس کا تعلق صرف استنجے کی صورت سے ہے، اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ استنجے والی صورت تو حدیث الباب سے ثابت ہو گئی اور اس کے علاوہ دوسری صورتیں دوسری معروف احادیث سے پہلے ہی معلوم ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرنے کو محبوب رکھتے تھے اور یہاں وہ صورت مراد ہو گی کہ چوڑے منہ والے برتن سے پانی چلو کے ذریعے سے نکالا جائے تو ظاہر ہے کہ اس برتن کو دائیں جانب رکھ کر دائیں ہاتھ سے پانی نکالیں گے اور بائیں ہاتھ پر ڈالیں گے۔ اگر تنگ منہ والا برتن ہو جس سے چلو نہ بھرا جاسکتا ہو تو اسے بائیں جانب رکھیں گے، پھر اسے جھکا کر دائیں ہاتھ میں پانی لیں گے۔ جیسا کہ خطابی نے وضاحت کی ہے۔ (فتح الباري:488/1) علامہ خطابی کی وضاحت کو کرمانی نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (شرح الکرماني:129/1)
2۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ نے جسم صاف کرنے کے لیے کپڑا نہ لینے کا اشارہ فرمایا۔ آگے وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ آپ ﷺ نے واپس نہیں کیا یہ ترجمہ صحیح نہیں، کیونکہ مسند امام احمد میں مزید وضاحت ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ میں لینا نہیں چاہتا اور حدیث میمونہ کے ایک طریق میں ہے کہ میں نے آپ کو کپڑا دیا لیکن آپ نے نہ لیا۔ (فتح الباري:488/1)
3۔ اس روایت میں ہے کہ اعمش کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں، حالانکہ اس سے پہلے یہ روایت گزر چکی ہے کہ عبد الواحد جب اعمش سے بیان کرتے ہیں تو دو یا تین مرتبہ میں شک کو بیان کرتے ہیں اور جب حضرت ابن فضیل اعمش سے بیان کرتے ہیں تو وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن فضیل جب اعمش سے روایت کرتے ہیں تو اس وقت اعمش کا شک دور ہو گیا ہو گا، کیونکہ اعمش سے ابن فضیل کا سماع بعد کا ہے، بغیر شک کے تین مرتبہ ہاتھوں پر پانی ڈالنے کی روایت کو ابو عوانہ نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:488/1)
4۔ شریعت مطہرہ کے اصول کی روسے جو کام تکریم و زینت سے تعلق رکھتے ہیں انھیں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً: مسجد میں داخل ہونا، مصافحہ کرنا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، بالوں میں کنگھی کرنا، کپڑا زیب تن کرنا، سلام پھیرنا، اعضائےطہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، حجراسود کا استلام کرنا وغیرہ، باقی جو باتیں ان کی ضد ہیں یا بری جگہوں سے متعلق ہیں یا ایسے کام جو ادنی ہیں تو وہاں بائیں کو دائیں پر مقدم کرنا چاہیے، مثلاً: بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، ناک صاف کرنا، استنجا کرنا، جوتا اتارنا ان میں تیامن (دائیں جانب اختیار کرنے) کے بجائےتیاسر (بائیں جانب اختیار کرنا) مستحب ہے۔