تشریح:
(1) ام المومنین حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگانے سے صرف ان کی ذات کو ہدف تنقید بنانا مقصود نہ تھا بلکہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے اس کی آڑ میں اسلام کی بنیاد ڈھانے کا بدترین منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جب لوگوں میں یہ بات مشہور ہو جائے گی تو وہ دیدہ دلیری سے کہہ سکیں گے کہ جس شخص کی بیوی ایسی ہو وہ رسول کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر آسانی سے یہ بات کہی جا سکے گی کہ جس رسول کا یہ حال ہے اس پر وحی لانے والا فرشتہ اور وحی بھیجنے والا اللہ بھی ایسا ہو گا۔ نعوذ بالله من ذلك۔ اس تہمت کا پس منظر انکار رسالت و الوہیت تھا۔ (2) بعض سادہ لوح صحابۂ کرام ؓ جیسے حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت حجش ؓ بھی اس کے دھوکے میں پھنس کر رہ گئے تھے۔ پورے سینتیس دن کے بعد اس ناپاک منصوبے کا خاتمہ ہوا۔ (3) امام بخاری ؒ اس طویل حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عورتوں کی گواہی کسی عورت کو معتبر قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا حضرت بریرہ ؓ سے سوال کرنا اور ان کا حضرت عائشہ ؓ کی براءت میں جواب دینا اور ان کی معصومیت بیان کرنا اور رسول اللہ ﷺ کا اس پر اعتماد کرنا، پھر حضرت زینب بنت حجش ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق پوچھنا اور ان کا حضرت عائشہ ؓکے متعلق صفائی دینا اور رسول اللہ ﷺ کا اس پر اعتماد کرنا، نیز حضرت عائشہ ؓ کا حضرت زینب ؓ کے متعلق تقویٰ اور پرہیزگاری کی گواہی دینا، ان سب باتوں سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (4) امام بخاری ؒ کے قائم کیے ہوئے عنوان میں ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عورتوں کی آپس میں تعدیل تو قابل اعتبار ہے مگر مردوں کے لیے ان کی تعدیل معتبر نہیں ہو گی۔ (فتح الباري:336/5) حدیث افک کے متعلق فکر رفاہی کے حاملین نے جو اعتراضات کیے ہیں، انہیں ہم آئندہ بیان کریں گے اور ان کا جواب دیں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ