تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ قسم اٹھانے میں شدت اختیار کرنا واجب نہیں۔ ان احادیث میں صرف ''باللہ'' پر اکتفا کیا گیا ہے۔ کچھ ائمہ کا موقف ہے کہ اگر قاضی اسے مہتم کرے تو اپنی قسم میں شدت پیدا کرنے کے لیے مزید الفاظ بڑھائے جا سکتے ہیں۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق صرف اللہ کے نام اور اس کی صفات پر اکتفا کیا جائے۔ اللہ کے نام کے سوا کسی دوسری چیز کی قسم اٹھانا نہ صرف ناقابل اعتبار ہے بلکہ گناہ ہے، جیسا کہ دیگر احادیث میں ہے: ’’جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے شرک یا کفر کیا، اس لیے قسم صرف اللہ کے نام کی ہے بصورت دیگر اس کا خاموش رہنا بہتر ہے۔'‘‘ (جامع الترمذي، النذور و الأیمان، حدیث:1535، و صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2679) اگر غیر دانستہ طور پر غیراللہ کی قسم کھا بیٹھے تو امید ہے کہ گناہ نہیں ہو گا۔ اپنے باپ دادا، بزرگ، ولی، کعبہ، فرشتے یا کسی پیغمبر کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے، البتہ رب العالمین جس چیز کی چاہے قسم اٹھا سکتا ہے۔