باب: کیا جنبی اپنے ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈال سکتا ہے؟ جب کہ جنابت کے سوا ہاتھ میں کوئی گندگی نہیں لگی ہوئی ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Can a Junub (a person who has yet to take bath after the sexual act or wet dream) put his hands in a pot (containing water) before washing them if they are not polluted with a dirty thing except Janaba?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جب کہ جنابت کے سوا ہاتھ میں کوئی گندگی نہیں لگی ہوئی ہو۔ ابن عمر اور براء بن عازب نے ہاتھ دھونے سے پہلے غسل کے پانی میں اپنا ہاتھ ڈالا تھا۔ اور ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم اس پانی سے غسل میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے جس میں غسل جنابت کا پانی ٹپک کر گر گیا ہو۔تشریح : حضرت امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہاتھ پر اور کوئی نجاست نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ڈال دے تو پانی نجس نہ ہوگا۔ کیونکہ جنابت نجاست حکمی ہے، حقیقی نہیں ہے۔ ابن عمر ؓ کے اثر کوسعید بن منصور نے اور براءبن عازب کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔ ان میں جنابت کا ذکر نہیں ہے۔ مگر حضرت امام نے جنابت کو حدث پر قیاس کیا ہے۔ کیوں کہ دونوں حکمی نجاست ہیں اور ابن ابی شیبہ نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ بعض اصحاب کرام اپنے ہاتھ بغیر دھوئے پانی میں ڈال دیتے حالانکہ وہ جنبی ہوتے، یہ اسی حالت میں کہ ان کے ہاتھوں پر ظاہر میں کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہوتی تھی۔
268.
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن میں غسل جنابت کرتے تھے۔ عبدالرحمٰن بن قاسم اپنے والد (قاسم بن محمد بن ابی بکر) کے واسطے سے بھی حضرت عائشہ ؓ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
تشریح:
1۔ ان احادیث کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی ایک غرض تو پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کو ثابت کرنا ہے اور دوسری یہ کہ ضرورت کے وقت ہاتھ دھوئے بغیر بھی پانی میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور چلو میں پانی نکال سکتے ہیں، اگرچہ شریعت کی نظر میں پسند یدہ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ دھوئے جائیں پھر انھیں پانی میں ڈالا جائے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چار احادیث نقل کی ہیں، پہلی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ غسل کرتے وقت ہمارے ہاتھ اس برتن میں یکے بعد دیگرے پڑتے تھے اور ظاہر ہے کہ ایسا بحالت جنابت ہوتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجاست حکمی (جنابت) کا پانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن اس روایت میں غسل جنابت کی صراحت نہ تھی۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ کا یہ غسل نظافت یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ہو، اس لیے دوسری روایت پیش فرمائی جس میں صراحت ہے کہ یہ غسل، غسل جنابت ہوتا تھا، لیکن اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھو لیتے اور یہ اس وقت ہوتا تھا جب آپ کو ہاتھ پر نجاست کا شبہ ہوتا، اگر ایسا ہو تو دھو کر برتن میں ڈالنا چاہیے، اگر کوئی شبہ نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ ہاتھوں پر کوئی دوسری نجاست نہیں تو بغیر دھوئے بھی انھیں برتن میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ابتداءً یہ عمل اس احتیاط پر مبنی ہو کہ دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو۔ تیسری روایت میں برتن اور غسل جنابت دونوں کا یکجا ذکر ہے۔ ان تینوں روایات سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ روایات حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ اس طرح بحالت جنابت پانی لینے میں حضرت عائشہ ؓ کی کسی خصوصیت کو دخل ہو۔ امام بخاری ؒ نے چوتھی روایت لا کر اس شبہے کا ازالہ کر دیا، کیونکہ اس میں حضرت عائشہ ؓ کا ذکر نہیں ہے۔ بہرحال امام بخاری کا منشا یہ ہے کہ یہ تمام احادیث مطلق ہیں اور ان کا تعلق جنابت سے ہے، پانی لینے کی کوئی بھی صورت ہو اگر ہاتھ پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہوئی نہ ہو تو غسل سے قبل پانی یا برتن میں ہاتھ ڈالنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی نجاست لگی ہو تو اسے غسل سے قبل ضرور دھو لینا چاہیے، اگر اسے دھوئے بغیر پانی یا برتن میں ہاتھ ڈال دیا تو اس سے پانی نجس ہو جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
265
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
263
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
263
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
263
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
جب کہ جنابت کے سوا ہاتھ میں کوئی گندگی نہیں لگی ہوئی ہو۔ ابن عمر اور براء بن عازب نے ہاتھ دھونے سے پہلے غسل کے پانی میں اپنا ہاتھ ڈالا تھا۔ اور ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم اس پانی سے غسل میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے جس میں غسل جنابت کا پانی ٹپک کر گر گیا ہو۔تشریح : حضرت امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہاتھ پر اور کوئی نجاست نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ڈال دے تو پانی نجس نہ ہوگا۔ کیونکہ جنابت نجاست حکمی ہے، حقیقی نہیں ہے۔ ابن عمر ؓ کے اثر کوسعید بن منصور نے اور براءبن عازب کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔ ان میں جنابت کا ذکر نہیں ہے۔ مگر حضرت امام نے جنابت کو حدث پر قیاس کیا ہے۔ کیوں کہ دونوں حکمی نجاست ہیں اور ابن ابی شیبہ نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ بعض اصحاب کرام اپنے ہاتھ بغیر دھوئے پانی میں ڈال دیتے حالانکہ وہ جنبی ہوتے، یہ اسی حالت میں کہ ان کے ہاتھوں پر ظاہر میں کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہوتی تھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن میں غسل جنابت کرتے تھے۔ عبدالرحمٰن بن قاسم اپنے والد (قاسم بن محمد بن ابی بکر) کے واسطے سے بھی حضرت عائشہ ؓ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ ان احادیث کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی ایک غرض تو پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کو ثابت کرنا ہے اور دوسری یہ کہ ضرورت کے وقت ہاتھ دھوئے بغیر بھی پانی میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور چلو میں پانی نکال سکتے ہیں، اگرچہ شریعت کی نظر میں پسند یدہ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ دھوئے جائیں پھر انھیں پانی میں ڈالا جائے۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چار احادیث نقل کی ہیں، پہلی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ غسل کرتے وقت ہمارے ہاتھ اس برتن میں یکے بعد دیگرے پڑتے تھے اور ظاہر ہے کہ ایسا بحالت جنابت ہوتا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجاست حکمی (جنابت) کا پانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن اس روایت میں غسل جنابت کی صراحت نہ تھی۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ کا یہ غسل نظافت یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ہو، اس لیے دوسری روایت پیش فرمائی جس میں صراحت ہے کہ یہ غسل، غسل جنابت ہوتا تھا، لیکن اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھو لیتے اور یہ اس وقت ہوتا تھا جب آپ کو ہاتھ پر نجاست کا شبہ ہوتا، اگر ایسا ہو تو دھو کر برتن میں ڈالنا چاہیے، اگر کوئی شبہ نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ ہاتھوں پر کوئی دوسری نجاست نہیں تو بغیر دھوئے بھی انھیں برتن میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ابتداءً یہ عمل اس احتیاط پر مبنی ہو کہ دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو۔ تیسری روایت میں برتن اور غسل جنابت دونوں کا یکجا ذکر ہے۔ ان تینوں روایات سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ روایات حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ اس طرح بحالت جنابت پانی لینے میں حضرت عائشہ ؓ کی کسی خصوصیت کو دخل ہو۔ امام بخاری ؒ نے چوتھی روایت لا کر اس شبہے کا ازالہ کر دیا، کیونکہ اس میں حضرت عائشہ ؓ کا ذکر نہیں ہے۔ بہرحال امام بخاری کا منشا یہ ہے کہ یہ تمام احادیث مطلق ہیں اور ان کا تعلق جنابت سے ہے، پانی لینے کی کوئی بھی صورت ہو اگر ہاتھ پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہوئی نہ ہو تو غسل سے قبل پانی یا برتن میں ہاتھ ڈالنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی نجاست لگی ہو تو اسے غسل سے قبل ضرور دھو لینا چاہیے، اگر اسے دھوئے بغیر پانی یا برتن میں ہاتھ ڈال دیا تو اس سے پانی نجس ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت براء بن عازبؓ نے اپنے ہاتھ دھونے سے پہلے انہیں غسل کے پانی میں ڈالا تھا، پھر اس سے وضو کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابن عباس ؓ ان چھینٹوں میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کرتے تھے جو غسل جنابت سے اڑتی ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا۔ کہا ہم سے شعبہ نے ابوبکر بن حفص کے واسطے سے بیان کیا، وہ عروہ سے، وہ عائشہ ؓ سے، انھوں نے کہا کہ میں اور نبی کریم ﷺ (دونوں مل کر) ایک ہی برتن میں غسل جنابت کرتے تھے۔ اور شعبہ نے عبدالرحمن بن قاسم سے، انھوں نے اپنے والد (قاسم بن محمد بن ابی بکر ؓ ) سے وہ عائشہ ؓ سے۔ اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) and I used to take a bath from a single pot of water after Janaba.