تشریح:
1۔ عنوان سے حدیث کی مطابقت کے متعلق علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث عائشہ ؓ سے پتہ چلتا ہے کہ احرام سے پہلے لگائی گئی خوشبو کے اثرات احرام کے بعد بھی باقی تھے۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہر بیوی کے پاس الگ الگ غسل کیا ہوتا تو خوشبو کے اثرات کا باقی رہنا عادتا بعید ہے۔ اسی طرح حدیث انس میں عنوان کا ثبوت (في الساعة الواحدة) کے الفاظ سے بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ ایک ساعت میں ہر ایک کے پاس جانا اور ہر ایک کے پاس الگ الگ غسل کرنا عادتا محال ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے سب سے فراغت کے بعد آخر میں ایک غسل فرمایا تھا۔ (حاشیة السندي:59/1) دونوں روایات سے عنوان کا ثبوت اشارۃ النص سے ہو رہا ہے۔ امام بخاری ؒ اپنی دقت نظر کے پیش نظر استدلال کے لیے نئے نئے طریقے استعمال کرتے ہیں۔
2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ہی ساعت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے گئے، حیرت و تعجب کے ساتھ اس سے سوال ہوا کہ آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قدر طاقت تھی کہ آپ ایک وقت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے جاسکتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا: کیونکہ نہیں، ہمارے ہاں یہ بات مشہور تھی کہ آپ کو اس دنیا میں تیس مردوں کی قوت دی گئی۔ اسماعیلی ؒ کی روایت میں چالیس مردوں کی صراحت ہے، اگرچہ روایت شاذ ہے، مگر مراسیل طاوس میں بھی اسی طرح ہے اور اس میں (في الجماع) کا لفظ بھی ہے۔ نیزصفة الجنة لأبي نعیم میں اہل جنت کے آدمیوں کی طاقت کے الفاظ ہیں۔ حضرت زید بن ارقم کی روایت میں ہے کہ جنت کے ایک آدمی کو اکل وشرب اور جماع و شہوت کی قوت ایک سو مردوں کے برابر حاصل ہوگی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی قوت کا حساب چار ہزارمردوں کے برابرہوتا ہے۔ (فتح الباري:491/1) اس قدر قوت جماع کے باوجود آپ نے صرف گیارہ عورتوں سے تعلق رکھا ہے۔
3۔ ہشام کی روایت کے مطابق ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد گیارہ ہے۔ جبکہ سعید کی روایت میں نو کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عقد زواج میں بیک وقت نو سے زیادہ ازواج جمع نہیں ہوئیں، اس بنا پر سعید کی روایت راجح ہے اور ہشام کی روایت کو ازواج کے ساتھ ماریہ اور ریحانہ کو بھی ملانے پر محمول کریں گے۔ ان تمام پر (نِسَاءَ النَّبِيِّ) کا اطلاق بطور تغلیب ہوا ہے۔ علامہ دمیاطی ؒ نے اپنی سیرت میں ان کی تعداد تیس تک بتائی ہے جن میں وہ بھی ہیں جو پوری طرح شرف زوجیت سے مشرف ہوئیں اور وہ بھی ہیں جن سے صرف عقد نکاح ہوا اور وہ بھی ہیں جن کو آپ نے قبل مصاحبت طلاق دے دی اور وہ بھی ہیں جنھیں آپ نے پیغام نکاح دیا لیکن عقد زواج نہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ کثرت مذکورہ بوجہ اختلاف بعض اسماء ہوئی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ صحیح تعداد ان سے کہیں کم ہے۔ (فتح الباري:490/1) ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی تعداد میں اختلاف ہے، مگر گیارہ پر سب کا اتفاق ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت اُم حبیبہ ؓ ، حضرت اُم سلمہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت زینب بنت حجش ؓ، حضرت میمونہ ؓ ، حضرت زینب ؓ بنت خزیمہ ؓ ، حضرت جویریہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ ، تزوج کے لحاظ سے ترتیب اس طرح ہے: حضرت خدیجہ ؓ، حضرت سودہ ؓ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ، اُ م حبیبہ ؓ، حضرت زینب بنت حجش ؓ ، حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ ، اُم المساکین، حضرت میمونہ ؓ، حضرت جویریہ ؓ ، حضرت صفیہ ؓ ۔ رسول اللہ ﷺ کی بیشتر اولاد حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے ہوئی، جن کی تفصیل یہ ہے: حضرت قاسم ؓ ، حضرت زینب ؓ ، حضرت رقیہ ؓ ، حضرت اُم کلثوم ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت عبد اللہ ؓ ان کے علاوہ آخری اور ساتویں اولاد حضرت ابراہیم ؓ تھے جو آپ کی لونڈی ماریہ قبطیہ کےبطن سے پیدا ہوئے، ان کا انتقال بھی صغرسنی میں ہوا۔