تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔ اس میں معاملات و عقود برابر ہیں۔ اس پر سب علماء کا اتفاق ہے، لہذا اگر دو جھوٹے گواہ کسی شخص کے لیے مال کی گواہی دیں اور قاضی بظاہر ان کی سچائی پر فیصلہ کر دے تو جس کے لیے مال کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے لیے وہ مال حلال نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر جھوٹے گواہ کسی پر قتل کی گواہی دیں تو مقتول کے وارث کے لیے جائز نہیں کہ اس سے قصاص لے جبکہ اسے گواہوں کے جھوٹے ہونے کا علم ہو۔ (2) علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں: حدیث میں موجود صورت حال اس وقت متصور ہو گی کہ قسم اٹھانے کے بعد گواہ پیش کیے جائیں۔ شارح بخاری ابن منیر ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے لیے حلال یا اپنا حق اس پر ثابت نہیں کر سکتا۔ وہ چیز قسم اٹھانے کے بعد بھی اس پر حرام رہے گی۔ قسم اٹھانے سے پہلے اور بعد دونوں حالتوں میں وہ چیز حق دار کی ہے اگر وہ گواہی لے آئے۔ (فتح الباري:355/5)