تشریح:
(1) قبیلۂ بنو عمرو بن عوف مقام قباء میں آباد تھا۔ ان کا کسی وجہ سے آپس میں جھگڑا ہو گیا یہاں تک کہ ایک دوسرے کو پتھر مارنے تک نوبت پہنچ گئی۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر مسجد نبوی میں ادا کی، پھر اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے قباء تشریف لے گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں صلح کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس کے لیے بڑی سے بڑی شخصیت بھی پیش قدمی کر سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے۔ آپ خود اس عظیم مقصد کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاري، الصلح، حدیث:2693) صلح کے بعد جب واپس تشریف لائے تو نماز عصر کھڑی ہو چکی تھی۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث:7190) (2) بعض فقہاء کا موقف ہے کہ امام اور قاضی کو فیصلہ کرنے کا اس وقت حق ہے جب اس کی عدالت میں مقدمہ دائر ہو۔ امام بخاری ؒ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس موقف کی تردید کرنا چاہتے ہیں کہ اس عظیم مقصد کے لیے مقدمہ دائر ہونا ضروری نہیں بلکہ امام اور قاضی خود وہاں جا کر فریقین کے درمیان صلح کرا دے تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ازخود قبیلۂ بنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے قباء تشریف لے گئے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قبیلۂ بنو عمرو بن عوف کے درمیان جھگڑے کا سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ بہرحال یہ قبیلہ اوس خاندان کی شاخ تھا۔ (فتح الباري:363/5)