قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصُّلْحِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الإِصْلاَحِ بَيْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا،)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ، أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَيْنَ النَّاسِ، وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ، فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا}، وَخُرُوجِ الإِمَامِ إِلَى المَوَاضِعِ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ بِأَصْحَابِهِ "

2690. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ أُنَاسًا مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ بِلاَلٌ، فَأَذَّنَ بِلاَلٌ بِالصَّلاَةِ، وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُبِسَ وَقَدْ حَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ، فَأَقَامَ الصَّلاَةَ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الأَوَّلِ، فَأَخَذَ النَّاسُ بِالتَّصْفِيحِ حَتَّى أَكْثَرُوا، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَكَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلاَةِ، فَالْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ فَأَمَرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ كَمَا هُوَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَهُ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي صَلاَتِكُمْ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ، إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيَقُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ لاَ يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا التَفَتَ، يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ لَمْ تُصَلِّ بِالنَّاسِ ، فَقَالَ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” ان کی اکثر کانا پھونسیوں میں خیر نہیں ، سو ان ( سرگوشیوں ) کے جو صدقہ یا اچھی بات کی طرف لوگوں کو ترغیب دلانے کے لیے ہوں یا لوگوں کے درمیان صلح کرائیں اور جو شخص یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو جلد ی ہم اسے اجر عظیم دیں گے “ ۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ امام خود اپنے اصحاب کے ساتھ مختلف مقامات پر جاکر لوگوں میں صلح کرائے ۔ تشریح : حضرت امام بخاری نے صلح کی فضیلت میں اسی آیت پر اقتصار کیا، شاید ان کو کوئی حدیث صحیح اس باب میں اپنی شرط پر نہیں ملی۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ابوالدرداءسے مرفوعاً نکالا کہ میں تم کو وہ بات نہ بتلاؤں جو روزے اور نماز اور صدقے سے افضل ہے، وہ کیا ہے آپس میں ملاپ کردینا۔ آپس میں فساد نیکیوں کو مٹادیتا ہے۔ صلح کے مقابلے پر فساد جھگڑا جس کی قرآن مجید نے شدت سے برائی کی ہے اور بار بار بتلایا ہے کہ اللہ پاک جھگڑے فساد کو دوست نہیں رکھتا۔ وہ بہرحال صلح، امن، ملاپ کو دوست رکھتا ہے۔

2690.

حضرت سہل بن سعد  ؓ سے روایت ہے کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں کچھ جھگڑا ہوا تو نبی کریم ﷺ اپنے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین کو ساتھ لے کر ان کے پاس گئے تاکہ ان میں صلح کرادیں۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا اور نبی کریم ﷺ واپس تشریف نہ لاسکے۔ حضرت بلال  ؓ نے نماز کے لیے اذان کہی تب بھی نبی کریم ﷺ نہ پہنچ سکے تو حضرت بلال  حضرت ابوبکر  ؓ کے پاس گئے اور ان سے عرض کیا: نبی کریم ﷺ کسی وجہ سے وہاں رُک گئے ہیں، نماز کا وقت ہوگیا ہے تو کیا آپ لوگوں کی امامت کرائیں گے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، اگر تم چاہوتو (میں اسے بجالانے کوتیار ہوں)، چنانچہ حضرت بلال  ؓ نے تکبیر کہی تو حضرت ابوبکر  ؓ آگے بڑھے (اورنماز پڑھانے لگے۔ ) اتنے میں نبی کریم ﷺ صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آ پہنچے۔ آپ کو دیکھ کر لوگ بار بار ہاتھ پر ہاتھ مارنے (تالیاں بجانے) لگے لیکن حضرت ابو بکر  ؓ دوران نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ (تالیوں کی کثرت کی وجہ سے) انھوں نے ادھر دیکھا تومعلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ ان کے پیچھے تشریف فرما ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے دست انورسے اشارہ کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ وہ بدستور نماز پڑھاتے ہیں، لیکن ابو بکر  ؓ نے اپنا ہاتھ اٹھایا، اللہ کی حمد وثنا کی، پھر الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور صف میں کھڑے ہو گئے۔ نبی کریم ﷺ آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ’’لوگو! جب نماز میں تمھیں کوئی مسئلہ پیش آتاہے تو تالی بجانا کیوں شروع کردیتے ہو؟ تالی بجانا تو عورتوں کے لیے ہے۔ آئندہ تم میں سے کسی کو دوران نماز میں کوئی چیز پیش آئے تو وہ سبحان اللہ کہے کیونکہ جو بھی اسے سنے گا وہ دھر متوجہ ہوگا۔ اے ابوبکر!جب میں نے تمھیں اشارہ کیا تھا تو پھر کس چیز نے تمھیں نماز پڑھانے سے روک دیا؟‘‘ حضرت ابو بکر  ؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتاکہ وہ نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔