تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جس شخص نے دین اسلام میں کسی ایسی رسم کو رواج دیا جس کی کوئی اصل نہیں ہے تو اس رسم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔ ایسی رسم کو دیوار سے مار دیا جائے۔ (صحیح مسلم، الأقضیة، حدیث:4492(1718)، و سنن الدارقطني:160/4) (2) یہ حدیث شریعت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے۔ اس سے تمام بدعات کا رد ہوتا ہے جو لوگوں نے دین میں پیدا کر رکھی ہیں جیسا کہ تیجا، ساتواں، قل خوانی، چہلم، سالگرہ، تعزیہ، عرس اور میلے وغیرہ۔ (3) واضح رہے کہ عبداللہ بن جعفر کی روایت کو امام مسلم ؒ نے اور عبدالواحد کی روایت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:372/5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو صلح خلاف شریعت ہو وہ لغو اور باطل ہے۔