تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کی حضرت حسن بن علی ؓ کے متعلق مذکورہ پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی، چنانچہ ان کے ذریعے سے حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی دونوں جماعتوں کے درمیان صلح ہو گئی اور وہ امن و امان سے زندگی بسر کرنے لگے۔ (2) اس مقام پر کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسن ؓ کی بیعت کی گئی۔ آپ نے اس معاملے پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ امت میں اختلاف سے بہتر ہے کہ وہ خلافت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کر کے امت میں اتحاد و یگانگت پیدا کریں، چنانچہ انہوں نے چھ ماہ تک خلافت کے معاملات سر انجام دینے کے بعد ملک اور دنیا کی رونق کو ٹھکرا دیا، حالانکہ چالیس ہزار افراد ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت سے دستبرداری کی وجہ، ذلت اور قلت نہیں بلکہ محض امت کی خیرخواہی اور دین کی سربلندی مقصود تھی۔ (3) رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور اس سے مسلمانوں کی آپس میں خون ریزی رُک گئی۔ حضرت حسن ؓ کی عسکری طاقت، حضرت امیر معاویہ ؓ کی دور اندیشی، پھر حضرت حسن ؓ کی صلح پر آمادگی ان سب معاملات میں امت کے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ جس سال صلح عمل میں آئی، امت مسلمہ میں وہ سال عام الجماعۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ (4) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے انہی الفاظ سے ایک عنوان کتاب الفتن میں بھی ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث:7109)