قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشُّرُوطِ (بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ البَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

2718. حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَرَبَهُ فَدَعَا لَهُ فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: «بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ»، قُلْتُ: لاَ، ثُمَّ قَالَ: «بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ»، فَبِعْتُهُ، فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلاَنَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَأَرْسَلَ عَلَى إِثْرِي، قَالَ: «مَا كُنْتُ لِآخُذَ جَمَلَكَ، فَخُذْ جَمَلَكَ ذَلِكَ، فَهُوَ مَالُكَ»، قَالَ شُعْبَةُ: عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ: أَفْقَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ، وَقَالَ إِسْحَاقُ: عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ: فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ، حَتَّى أَبْلُغَ المَدِينَةَ، وَقَالَ عَطَاءٌ، وَغَيْرُهُ: «لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى المَدِينَةِ» وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ: شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ، وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: عَنْ جَابِرٍ: وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَرْجِعَ، وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ: أَفْقَرْنَاكَ ظَهْرَهُ إِلَى المَدِينَةِ، وَقَالَ الأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ: تَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِكَ، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، وَابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ: اشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقِيَّةٍ. وَتَابَعَهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرٍ، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ عَطَاءٍ، وَغَيْرِهِ، عَنْ جَابِرٍ: أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، «وَهَذَا يَكُونُ وَقِيَّةً عَلَى حِسَابِ الدِّينَارِ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ وَلَمْ يُبَيِّنِ الثَّمَنَ»، مُغِيرَةُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ المُنْكَدِرِ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، وَقَالَ الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ: وَقِيَّةُ ذَهَبٍ، وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ: بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ، وَقَالَ دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ: اشْتَرَاهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ، أَحْسِبُهُ قَالَ: بِأَرْبَعِ أَوَاقٍ، وَقَالَ أَبُو نَضْرَةَ: عَنْ جَابِرٍ: اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِينَارًا وَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ: بِوَقِيَّةٍ أَكْثَرُ الِاشْتِرَاطُ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ عِنْدِي قَالَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ

مترجم:

2718.

حضرت جابر بن عبد اللہ  ؓ سے روایت ہے، کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سوار ہو کر سفر کر رہے تھے جو تھک چکا تھا۔ نبی ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے اس اونٹ کو مارا اور اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ اتنا تیز چلنے لگا کہ اس جیسا کبھی نہیں چلا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’تم اسے ایک اوقیے کے عوض میرے ہاتھ فروخت کر دو۔‘‘ میں نے عرض کیا: نہیں آپ نے دوبارہ فرمایا: ’’ایک اوقیے کے عوض یہ اونٹ مجھے فروخت کر دو۔‘‘ چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ اسے فروخت کر دیا لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اس کی قیمت مجھے نقد ادا کردی لیکن جب میں واپس ہو نے لگا تو آپ نے میرے پیچھے آدمی بھیجا۔ (میرے پہنچنے پر)آپ نے فرمایا: ’’میں تو تمھارا اونٹ لینا نہیں چاہتا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ یہ تمھارا ہی مال ہے۔‘‘  شعبہ کی روایت کے مطابق حضرت جابر  ؓ کا بیان ہے کہ میں اونٹ اس شرط پر فروخت کیا کہ مدینہ طیبہ کی مجھے اجازت دی تھی۔ اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت جابر  ؓ کا بیان ہے کہ میں اونٹ اس شرط پر فروخت کیا کہ مدینہ طیبہ پہنچنے تک اس پر سواررہوں گا۔ حضرت عطاء وغیرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’اس پر مدینہ طیبہ تک سواری تمھاری ہے۔‘‘ محمد بن منکدر نے حضرت جابر  ؓ سے بیان کیا کہ انھوں نے مدینہ طیبہ تک سواری کی شرط لگائی تھی۔ زید بن اسلم نے حضرت جابر  ؓ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مدینہ طیبہ تک تم ہی اس پر سوار رہو گے۔‘‘  ابو زبیر نے حضرت جابر  ؓ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہم نے مدینہ طیبہ تک اس پر سواری کی آپ کو اجازت دی۔‘‘  اعمش نے بواسطہ سالم بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے گھرتک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔‘‘ ابو عبد اللہ (امام بخاری ) نے فرمایا: میرے نزدیک شرط والی بات اکثر اور زیادہ صحیح ہے۔ عبید اللہ اور ابن اسحاق کے بیان کے مطابق نبی ﷺ نے اونٹ ایک اوقیے میں خریدا تھا۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے حضرت جابر  ؓ سے کی ہے۔ ابن جریج کی روایت کے مطابق رسول اللہ نے فرمایا: ’’میں تمھارا یہ اونٹ چار دینارمیں لیتا ہوں۔‘‘ اس حساب کے مطابق ایک دینار دس درہم کا اور دینار کا ایک اوقیہ ہو گا۔ مغیرہ وغیرہ نے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا۔ اعمش نے بواسطہ سالم اپنی روایت میں ایک اوقیہ سونے کی وضاحت کی ہے۔ ابو اسحاق نے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں۔ داود بن قیس کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ اونٹ تبوک کے راستے میں خریدا تھا۔ نیز کہا کہ میرے خیال کے مطابق آپ نے اسے چار اوقیے میں خریداتھا۔ ابو نضرہ نے بیان کیا کہ بیس دینار میں خریداتھا۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوقیہ ہی زیادہ روایات میں ہے۔ اسی طرح شرط لگانا بھی بیشتر روایات سے ثابت ہے۔ میرے نزدیک یہی صحیح ہے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ) کا بھی یہی قول ہے (جیسا کہ پہلے گزرا ہے)