تشریح:
(1) جب بیچنے والا کوئی چیز فروخت کرے اور کچھ دیر کے لیے اس پر سواری کی شرط کرے تو اس کے جائز ہونے میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ اسے جائز سمجھتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی موقف ہے جبکہ کچھ حضرات اس قسم کی بیع کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بیع میں کچھ مستثنیٰ کر لینے سے منع فرمایا ہے، نیز آپ نے بیع اور شرط سے بھی منع فرمایا ہے اور اس میں دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، لیکن حق بات یہ ہے کہ ایسی بیع جائز ہے جیسا کہ حدیث جابر ؓ میں صراحت ہے کہ انہوں نے اپنا اونٹ فروخت کرتے وقت مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کا استثنا کر لیا۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں: میں نے ایک اوقیے کے بدلے اسے فروخت کر دیا اور میں نے اپنے گھر تک اس پر سواری کی شرط لگائی۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:2406) مستثنیٰ کر لینے کی ممانعت کے متعلق حدیث درج ذیل ہے: حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خریدوفروخت کے وقت کچھ مستثنیٰ کرنے سے منع کیا ہے الا یہ کہ اس کی مقدار مقرر کر لی جائے۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3913(1536)) جابر ؓ کے واقعے میں بھی ایک معلوم چیز کا استثنا تھا، لہذا یہ منع نہیں ہے، البتہ مجہول شے کا استثنا منع ہے۔ اس سے بیع فاسد ہو جاتی ہے کیونکہ جہالت کی وجہ سے یہ بیع دھوکے پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس حدیث میں بیع اور شرط کی ممانعت ہے، اس کی سند میں مقال ہے، نیز وہ قابل تاویل ہے۔ (فتح الباري:386/5) (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایک ایک حدیث کے کتنے کتنے طرق یاد تھے۔ (3) ہمارے رجحان کے مطابق خریدوفروخت میں اگر معلوم چیز کی شرط لگائی جائے یا اس کا استثنا کر لیا جائے تو جائز ہے، اس سے بیع کے جواز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ واللہ أعلم