تشریح:
(1) حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مال کی وصیت نہیں کی کیونکہ آپ نے کوئی مال نہیں چھوڑا تھا۔ حضرت طلحہ بن مصرف نے اس حکم کو عام خیال کر کے دوبارہ سوال کیا کہ لوگوں پر وصیت کیوں فرض کی گئی ہے؟ تو انہوں نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی، چنانچہ ابن حبان کی روایت میں وضاحت ہے، حضرت ابن ابی ؓ سے سوال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: رسول اللہ ﷺ نے کوئی چیز قابل وصیت نہیں چھوڑی تھی۔ پھر سوال ہوا کہ جب آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی تو لوگوں کو وصیت کرنے کا حکم کیوں دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (صحیح ابن حبان:382/13، و فتح الباري:443/5) الغرض مال یا خلافت کے متعلق وصیت کی نفی ہے اور کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت کا اثبات ہے۔ (2) جب تک لوگ اس وصیت پر عمل پیرا رہے دنیوی ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور جب قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی، پھر مسلمان فرقوں میں بٹ کر مغلوب ہو گئے۔