تشریح:
(1) قرآن کریم میں ہے: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) ’’جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کرنا تم پر فرض کر دیا گیا ہے۔‘‘ (البقرة:180:2) اس کے بعد مذکورہ بالا حدیث یا آیت میراث کے ذریعے سے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا گیا اور والدین کے لیے باقاعدہ حصہ مقرر کر دیا گیا کہ اولاد ہونے کی صورت میں انہیں چھٹا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ گویا وراثت اور وصیت دونوں والدین کے لیے جمع نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح وارث کے لیے وصیت اور وراثت دونوں جمع نہیں ہوں گے۔ جیسے والدین کے لیے وصیت کو منسوخ کر دیا اسی طرح وارث کے لیے بھی وصیت کو منسوخ کر دیا۔ (2) اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا کوئی بیٹا نہ ہو جو بھائی کے لیے وراثت سے محرومی کا باعث ہے، پھر موصی کے مرنے سے پہلے پہلے اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو بھائی کے لیے وصیت جائز ہو گی کیونکہ اب وہ ترکے سے حصہ نہیں لے سکتا۔ بیٹے کی پیدائش سے پہلے اس کے لیے وصیت جائز نہیں تھی کیونکہ اس صورت میں وہ ترکے میں حق دار تھا۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنے بھائی کے لیے وصیت کی جبکہ اس کا بیٹا بھی موجود تھا، پھر اتفاق سے موصی کی وفات سے پہلے پہلے اس کے بیٹے کا انتقال ہو گیا تو اس صورت میں بھائی کے لیے وصیت جائز نہیں ہو گی کیونکہ بیٹے کے فوت ہونے پر بھائی عصبہ ہونے کی حیثیت سے وارث بن گیا اور وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ (فتح الباري:457/5) حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث میں ورثاء کے لیے حصوں کی وضاحت ہم آئندہ کتاب الفرائض میں کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ