تشریح:
(1) پہلے اور دوسرے فلاں سے مراد وہ شخص ہے جس کے لیے وصیت کی جائے اور آخری فلاں سے مراد شرعی وارث ہے اگر وہ چاہے تو اس کی وصیت کو نافذ کر دے اور اگر چاہے تو اسے رد کر دے کیونکہ اب وصیت کا نفاذ اس کے اختیار پر موقوف ہے۔ (2) دراصل بیماری کی دو حالتیں ہیں: ایک یہ ہے کہ انسان صاحب فراش ہو جائے، دوسری یہ ہے کہ انسان پر موت کے آثار نمایاں ہوں۔ پہلی حالت میں صدقہ اور وصیت جائز ہے اگرچہ افضل یہ ہے کہ یہ کام تندرستی کے وقت کیا جائے۔ دوسری حالت میں جب روح گلے کے قریب پہنچ جائے اور اس پر نزع کی حالت طاری ہو تو اس وقت وصیت یا صدقہ جائز نہیں اور نہ وہ آدمی مزید کسی قسم کے تصرف ہی کا اختیار رکھتا ہے۔ (3) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو زندگی اور تندرستی کی حالت میں کیا جائے جبکہ اسے خود بھی اس کی ضرورت ہو۔ موت و حیات کی کشمکش میں صدقہ یا وصیت جائز نہیں کیونکہ اس حالت میں مال اس کی ملکیت سے نکل چکا ہوتا ہے۔ (4) کسی بزرگ نے خوب کہا ہے: انتہا پسند مال دار اپنے مال کے بارے میں دو دفعہ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں: ایک اس وقت جب زندگی میں مال ان کے پاس ہوتا ہے تو بخل سے کام لیتے ہیں اور دوسرا اس وقت جب مال موت کے وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے تو اسراف کرتے ہیں کہ فلاں کو اتنا دے دو، فلاں کو اتنا دے دو، حالانکہ اس وقت وہ اس کا مالک نہیں ہوتا۔ (فتح الباري:458/5)