تشریح:
(1) حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنا وکیل بنا کر باغ ان کے حوالے کر دیا۔ آپ نے اسے قبول فرما کر پھر انہیں واپس کر دیا اور فرمایا: ’’تم اسے اپنے قریبی رشتے داروں میں تقسیم کر دو۔‘‘ (2) اس روایت میں ہے کہ حضرت حسان ؓ نے اپنا حصہ سیدنا معاویہ ؓ کو بیچ ڈالا تو لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ انہوں نے فرمایا: اب تو کھجور چاندی کے عوض فروخت ہو رہی ہے، یعنی ایسی گراں قیمت پھر کب ملے گی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے ایک لاکھ درہم میں ان کا حصہ خریدا تھا۔ چونکہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے یہ باغ معین لوگوں کو وقف کیا تھا، لہذا ان کے لیے اپنا حصہ فروخت کرنا جائز تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے ان لوگوں پر وقف کرتے وقت یہ شرط لگا دی تھی کہ اگر انہیں ضرورت ہو تو فروخت کر سکتے ہیں، بصورت دیگر وقف کو فروخت کرنا صحیح نہیں کیونکہ وقف میں تملیک نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم