تشریح:
1۔غزوہ اُحدکے موقع پر شراب حرام نہیں ہوئی تھی اور اس کا پینا جائز تھا اس لیے ان شہداء کی شراب نوشی کے باوجود اللہ کے ہاں تعریف کی گئی اور ان سے حزن و ملال اور وحشت و دہشت کا ازالہ کردیا گیا۔ 2۔عنوان کے تحت ذکر کردہ آیات کے آخر میں ہے۔’’یقیناً اللہ تعالیٰ اہل یمان کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ ان کے فعل شراب نوشی پر پکڑ کرتا تو پھر ان کے اعمال ضائع ہو جاتے ۔ چونکہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے جائز کام کر لینے پر شہادت کا عمل ضائع نہیں ہوا۔ 3۔روایت کے آخر میں راوی حدیث سے ایک سوال پھر اس کا جواب منقول ہے جبکہ ایک روایت میں سوال و جواب کا ذکر نہیں ہے اور نہ اس دن کے آخری حصے میں شہادت واقع ہونے کا ذکر ہی ہے۔(صحیح البخاري، المغازي، حدیث 4044) ایک روایت میں ہے۔لوگوں نے صبح کے وقت شراب نوشی کی اور اسی دن کے آخر میں شہید ہو گئے اور یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے۔(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث 4618)ممکن ہے کہ سفیان بن عیینہ پہلے ان الفاظ کو بھول گئے ہوں پھر انھیں یاد آگیا ہو۔(فتح الباري:40/6)