تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک جنبی آدمی غسل کیے بغیر ہرکام میں مصروف ہو سکتا ہے۔ حضرت عطاء کے قول کو بطوراستدلال پیش کیا ہے لیکن کچھ حضرات نے اس سلسلے میں حضرت عطاء کی مخالفت کی ہے، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حسن بصری کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ سب کاموں سے پہلے وضو کرنے کو مستحب قرار دیتے تھے۔ حدیث انس سے حضرت عطاء کے موقف کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں وضو کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ (فتح الباري:508/1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بصری ؒ وغیرہ وضو یا غسل سے پہلے بحالت جنابت دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کو پسند نہ کرتے تھے۔ جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جنابت سے قبل جنسی آدمی کو چلنے پھرنے کی ممانعت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ایک بیوی کے پاس سے دوسری بیوی کے پاس بحالت جنابت تشریف لے گئے، پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے گھر مسجد کے چاروں طرف واقع تھے۔ جب ایک حجرے سے دوسرے حجرے تک جانے کی اجازت ہے تو محلے میں بھی چلنے پھرنے کی اجازت ہوگی، پھر محلے میں چلنا اور بازار میں جانا دونوں برابر ہیں۔ جب آمد و رفت کاجواز ہے تو کھانے پینے میں کیا مضائقہ ہوسکتا ہے۔ اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے ۔ دوسری روایت میں تو یہ بات اورواضح ہوگئی، کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے مدینے کے کسی راستے میں ملے جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ اس وقت حالت جنابت میں تھے۔ اس سے جنابت کی حالت میں بازار کی آمد و رفت ثابت ہوئی۔
2۔ علامہ عینی ىؒ لکھتے ہیں کہ عام فقہاء کا یہ موقف ہے کہ جنبی آدمی بازار میں جا سکتا ہے اور آمدورفت رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم مصنف ابن ابی شیبہ (113۔112/1) میں ہے کہ حضرت علی ؓ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت عمر ؓ، حضرت شداد بن اوس ؓ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ، مجاہد ؒ ، ابن سیرین ؒ ، زہری ؒ ، محمد بن علی ؒ، اور امام نخعی ؒ جنابت کے بعد وضو سے پہلے نہ کچھ کھاتے اور نہ گھر ہی سے باہر نکلتے۔ اسی طرح امام بیہقی ؒ نے کتاب الطہارت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ، عبداللہ بن عمروؓ، حضرت عطا ؒ اور حسن بصری ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ حضرات بھی وضو کے بغیر مشاغل میں مصروف ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔ (عمدة القاري:74/3) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کا قول بیان جواز کے لیے پیش کیا ہے۔ اگرچہ بہتر یہ ہے کہ جنابت کے بعد وضو کر لیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ بھی نقل وحرکت کے علاوہ کوئی فعل بحالت جنابت ثابت نہیں۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بڑی عمدہ بات لکھی ہے، فرماتے ہیں: ’’جسے رات کو جنابت لاحق ہو، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ وضو کرو اور شرم گاہ کو دھو لو اور پھر سوجاؤ۔ میں کہتا ہوں کہ جنابت چونکہ فرشتوں کی صفات و طبائع کے منافی ہے اور وہ ہروقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں، اس لیے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ بحالت جنابت یوں ہی آزادی و بے پروائی سے اپنی ضروریات، سونے، کھانے پینے میں مصروف نہ ہو۔ اگرطہارت کبریٰ (غسل) نہ کرسکے تو کم از کم طہارت صغریٰ (وضو) ہی کرلے، کیونکہ فی الجملہ طہارت کا حصول دونوں سے ہوجاتا ہے، اگرچہ شارع نے دونوں کو، جداجدا احداث پر تقسیم کردیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة:557۔558/1) اس بنا پر بہتر ہے کہ جنبی آدمی کم از کم وضو کرلے۔ اگرچہ جواز کی حد تک وضو کے بغیر رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ واللہ أعلم۔