تشریح:
صحیح مسلم کی روایت میں مزید وضاحت ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ جب بحالت جنابت سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو کر لیتے، جیسا کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے، بلکہ خود امام بخاری ؒ نے اگلی روایت (288) میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی شرمگاہ کو دھو لیتے اور نماز کے وضو جیسا وضوکرکے سو جاتے۔ دراصل بخاری حضرت علی ؓ سےمروی ایک حدیث کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا، تصویر اورجنبی موجود ہو۔‘‘ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث:227) بعض حضرات کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے مذکورہ روایت ابی داؤد کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ روایت دوسری صحیح روایات کے مقابلے میں قابل عمل نہیں، لیکن حافظ ابن حجر ؒ اس موقف سے مطمئن نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ سے مروی روایت اس شخص کے بارے میں ہے جو غسل جنابت کے معاملے میں بے پروائی کا عادی ہو۔ ایسے شخص کی سزا یہی ہونی چاہیے کہ اس کے گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہ ہوں، لیکن جو شخص عادی نہیں، وہ غسل جنابت کا پورا اہتمام کرتا ہے، لیکن بعض اوقات کسی عذر کی وجہ سے غسل میں تاخیر ہوجاتی ہے تو جب تک نماز کا وقت نہ ہوجائے اس وقت تک جنبی رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ایک توجیہ یہ بھی لکھی ہے کہ حدیث علی ؓ سے مراد وہ جنبی ہے جو وضو بھی نہیں کرتا ہے، اس لیے اگر غسل کا موقع نہ دو تو اتنے وقت کے لیے یہ تخفیفی طہارت کرلی جائے تاکہ فرشتوں کی آمد ورفت بھی ہو سکے اور طبیعت بھی ہلکی رہے۔ اس طرح ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ (فتح الباري:508/1) ہمارے نزدیک بھی تطبیق کی یہی صورت بہتر ہے کہ جنبی بے وضو ہوتو رحمت کا فرشتہ گھر میں نہیں آئے گا۔ اگر وضو کر لے تو کم از کم فرشتے کی آمدورفت کے لیے راہ کھل جاتی ہے اوراتباع سنت کا شرف بھی حاصل ہوجائےگا۔