تشریح:
1۔مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا:’’تم اپنے اونٹ کو بٹھاؤ۔‘‘ میں نے اسے بٹھایا تو آپ نے فرمایا: ’’مجھے لکڑی دو۔‘‘ میں نے وہ لکڑی آپ کو تھمادی تو آپ نے اس سے اونٹ کو کئی ایک ٹھونسے دیے۔اس کےبعد آپ ﷺنے فرمایا: ’’اب اس پر سوار ہوجاؤ۔‘‘ تو میں اس پر سوار ہوگیا۔ (مسندأحمد 375/1، 376) 2۔امام بخاری ؒنے ثابت کیا ہے کہ کسی مصلحت کے پیش نظر دوسرے کی سواری کو مارنا جائز ہے۔ یہ ظلم یا زیادتی نہیں۔واضح رہے کہ یہ سفر غزوہ تبوک سے واپسی کا تھا۔جیسا کہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔(صحیح البخاري، الشروط، حدیث 2718)