تشریح:
1۔ سنن نسائی میں اس حدیث کا سبب ورود بایں الفاظ بیان ہوا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ کو جنابت لاحق ہوئی تو وہ اپنے والد محترم حضرت عمر ؓ کے پاس آئے اور ان سے سونے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے یہی سوال رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’وضو کر لے اور سو جائے ۔‘‘ اس بنا پر یہ واقعہ حضرت ابن عمر ؓ سے متعلق ہو گا اور جواب میں صیغہ خطاب اس لیے استعمال فرمایا کہ حضرت ابن عمر ؓ مجلس سوال میں موجود تھے اور مسئلہ بھی ان سے متعلق تھا تو رسول اللہ ﷺ نے براہ راست ان سے خطاب فرمایا کہ وضو کر لو، شرم گاہ دھو لو، پھر سو جاؤ، جیسا کہ آئندہ حدیث نمبر(290) میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:510/1)
2۔ پہلا عنوان عام تھا، کیونکہ وہاں (كَيْنُونَة) کا لفظ ’’ہونا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا تھا، چاہے انسان مکان میں بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔ اب یہ دوسرا باب عنوان خاص ہے، یعنی جنبی ہو سکتا ہے روایات میں سوال ہی کے اندر وضو کی قید موجود ہے، یعنی کیا ایسی صورت میں جنبی آدمی وضو کر کے سو سکتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے سوال کی رعایت کرتے ہوئے اس قید کو جواب میں دہرا دیا۔ ایسی قید میں مفہوم مخالف کی رعایت نہیں ہوتی۔ یہ مطلب نہیں کہ وضو کے بغیر سونا ناجائز ہے، بعض روایات میں نیند کو موت کی بہن کہا گیا ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني:حدیث:923 والسلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 1087) ہرانسان کی خواہش ہوتی ہے کہ مجھے موت اچھی حالت میں آئے اسی طرح انسان کا جذبہ ہونا چاہیے کہ نیند بھی اچھی حالت میں (باوضو) آئے، وضو کرنا ضروری نہیں، افضل ہے اگرچہ بعض ظاہری حضرات اسے واجب قراردیتے ہیں۔