تشریح:
1۔ (عشير) سے مراد خاوند ہے کیونکہ عورت کی عشرت اس سے متعلق ہوتی ہے اوروہی اس کی تمام ضروریات کا کفیل ہوتا ہے اگر اسے اپنے عموم پر رکھا جائے تو اس سے مراد ہر وہ شخص ہو سکتا ہے جس سے عورت کا میل جول رہتا ہے، جیسے باپ بھائی وغیرہ مقصد یہ ہے کہ یہ جنس کسی کا احسان نہیں مانتی بلکہ جہاں کوئی بات خلاف طبع سامنے آتی ہے تو تمام کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے اسی ناسپاسی کی وجہ سے جہنم کا زیادہ حصہ ان سے بھرا ہوا دکھایا گیا۔ ( شرح الکرماني:1؍ 136)۔
2۔ کفر کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں اگر کسی نے ان میں سے ایک کا بھی ارتکاب کیا اور توبہ کے بغیر مر گیا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں فرمائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔
1۔ کفر انکار: دل اور زبان سے اللہ کی وحدانیت کا انکار کرے اور توحید کی باتوں پر کان نہ دھرے، 2۔ کفر جحود: دل سے حقیقت کو پہچان لے لیکن زبان سے اس کا معترف نہ ہو جیسا کہ ابلیس لعین نے کفر کیا تھا۔ 3۔ کفر عناد: دل اور زبان سے حقیقت توحید کا معترف ہو لیکن اسے قبول نہ کرے جیسا کہ خواجہ ابو طالب نے کیا۔ 4۔ کفر نفاق: زبان سے اعتراف کرے اور اس کے مطابق احکام بھی بجالائے لیکن دل میں اس سے نفرت ہو جیسا کہ منافقین کا کفر ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان چاراقسام کے علاوہ ایک اور قسم بھی ہے جس کا نام کفر الحقوق ہے جس کے اثبات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کیا ہے اور جس کا مرتکب دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔
3۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کفران نعمت سے ایمان میں کمی ہو جاتی ہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے نیز ایمان پر انسانی اعمال اثر انداز ہوتے ہیں عورتوں کو اسی بنا پر ناقصات الدین کہا گیا ہے۔ (شرح الکرماني:1؍ 137)۔
4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب اور آئندہ چند ابواب سے ایمانیات کو مزید منقح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جس طرح کفر کے مراتب ہیں اسی طرح ایمان میں بھی فرق مراتب ہے ایمان کا ایک ایسا درجہ بھی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ہمیشہ کے لیے اس پر جنت حرام ہو جاتی ہے اور اگر وہ موجود ہو تو خلود فی النار کے لیے سدراہ بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مراتب کفر میں ایک ایسا درجہ ہے کہ معاذ اللہ اگر وہ انسان میں آجائے تو دخول جنت اس کے لیے شجر ممنوعہ بن جاتا ہےاور اس حالت میں مرنا خلود فی النار کا باعث ہے۔ اس سے یہ بات بصراحت معلوم ہوئی کہ معاصی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں اور طاعات سے ایمان کی نشوو نما ہوتی ہے۔