باب:خاوند کی ناشکری کے بیان میں اور ایک کفرکا(اپنے درجہ میں
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: To be ungrateful to one's husband. And disbelief is of (different grades) lesser (or greater) degrees)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس بارے میں وہ حدیث جسے ابوسعید خدریؓ نے آنحضرتﷺ سے روایت کیا ہے۔
29.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے دوزخ دیکھی تو وہاں اکثر عورتیں تھیں (کیونکہ) وہ کفر کرتی ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ وہ اپنے خاوند کا کفر کرتی ہیں، یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں۔ وہ یوں کہ اگر تو ساری عمر عورت سے اچھا سلوک کرے پھر وہ معمولی سی (ناگوار) بات تجھ میں دیکھے تو کہنے لگتی ہے کہ مجھے تجھ سے کبھی آرام نہیں ملا۔‘‘
تشریح:
1۔ (عشير) سے مراد خاوند ہے کیونکہ عورت کی عشرت اس سے متعلق ہوتی ہے اوروہی اس کی تمام ضروریات کا کفیل ہوتا ہے اگر اسے اپنے عموم پر رکھا جائے تو اس سے مراد ہر وہ شخص ہو سکتا ہے جس سے عورت کا میل جول رہتا ہے، جیسے باپ بھائی وغیرہ مقصد یہ ہے کہ یہ جنس کسی کا احسان نہیں مانتی بلکہ جہاں کوئی بات خلاف طبع سامنے آتی ہے تو تمام کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے اسی ناسپاسی کی وجہ سے جہنم کا زیادہ حصہ ان سے بھرا ہوا دکھایا گیا۔ ( شرح الکرماني:1؍ 136)۔ 2۔ کفر کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں اگر کسی نے ان میں سے ایک کا بھی ارتکاب کیا اور توبہ کے بغیر مر گیا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں فرمائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ 1۔ کفر انکار: دل اور زبان سے اللہ کی وحدانیت کا انکار کرے اور توحید کی باتوں پر کان نہ دھرے، 2۔ کفر جحود: دل سے حقیقت کو پہچان لے لیکن زبان سے اس کا معترف نہ ہو جیسا کہ ابلیس لعین نے کفر کیا تھا۔ 3۔ کفر عناد: دل اور زبان سے حقیقت توحید کا معترف ہو لیکن اسے قبول نہ کرے جیسا کہ خواجہ ابو طالب نے کیا۔ 4۔ کفر نفاق: زبان سے اعتراف کرے اور اس کے مطابق احکام بھی بجالائے لیکن دل میں اس سے نفرت ہو جیسا کہ منافقین کا کفر ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان چاراقسام کے علاوہ ایک اور قسم بھی ہے جس کا نام کفر الحقوق ہے جس کے اثبات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کیا ہے اور جس کا مرتکب دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ 3۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کفران نعمت سے ایمان میں کمی ہو جاتی ہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے نیز ایمان پر انسانی اعمال اثر انداز ہوتے ہیں عورتوں کو اسی بنا پر ناقصات الدین کہا گیا ہے۔ (شرح الکرماني:1؍ 137)۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب اور آئندہ چند ابواب سے ایمانیات کو مزید منقح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جس طرح کفر کے مراتب ہیں اسی طرح ایمان میں بھی فرق مراتب ہے ایمان کا ایک ایسا درجہ بھی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ہمیشہ کے لیے اس پر جنت حرام ہو جاتی ہے اور اگر وہ موجود ہو تو خلود فی النار کے لیے سدراہ بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مراتب کفر میں ایک ایسا درجہ ہے کہ معاذ اللہ اگر وہ انسان میں آجائے تو دخول جنت اس کے لیے شجر ممنوعہ بن جاتا ہےاور اس حالت میں مرنا خلود فی النار کا باعث ہے۔ اس سے یہ بات بصراحت معلوم ہوئی کہ معاصی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں اور طاعات سے ایمان کی نشوو نما ہوتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
29
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
29
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
29
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
29
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان اور اس کے اثرات بیان کرنے کے بعد اس کی ضد یعنی کفر اور اس کی اقسام کو بیان کرنا شروع کیا ہے فرمایا کہ کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ ہے کہ اس کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ دوسرا کفر وہ ہے جس کا مرتکب گناہ گار تو ضرورہوتا ہے لیکن خارج از اسلام نہیں ہوتا۔ اس عنوان میں دوسری قسم کا کفر مراد ہے۔ واضح رہے کہ(كُفر دُونَ كُفرِ)حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے جو انھوں نے درج ذیل آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہا تھا۔(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)"اور جو لوگ اللہ کے نزول کردہ احکام کے موافق فیصلے نہ کریں ایسے لوگ کافر ہیں۔"( المائدہ:5/44۔)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ باب میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا حوالہ بھی دیا جو انھوں نے کتاب الحیض (حدیث:304)میں بیان فرمائی ہے جس میں عورت کے (ناقصة العقل والدين) ہونے کا ذکرہے، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ آگے آنے والی حدیث متعدد طرق سے مروی ہے جن میں ایک طریق حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے۔
اس بارے میں وہ حدیث جسے ابوسعید خدریؓ نے آنحضرتﷺ سے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے دوزخ دیکھی تو وہاں اکثر عورتیں تھیں (کیونکہ) وہ کفر کرتی ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں بلکہ وہ اپنے خاوند کا کفر کرتی ہیں، یعنی ناشکری کرتی ہیں اور احسان فراموش ہیں۔ وہ یوں کہ اگر تو ساری عمر عورت سے اچھا سلوک کرے پھر وہ معمولی سی (ناگوار) بات تجھ میں دیکھے تو کہنے لگتی ہے کہ مجھے تجھ سے کبھی آرام نہیں ملا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ (عشير) سے مراد خاوند ہے کیونکہ عورت کی عشرت اس سے متعلق ہوتی ہے اوروہی اس کی تمام ضروریات کا کفیل ہوتا ہے اگر اسے اپنے عموم پر رکھا جائے تو اس سے مراد ہر وہ شخص ہو سکتا ہے جس سے عورت کا میل جول رہتا ہے، جیسے باپ بھائی وغیرہ مقصد یہ ہے کہ یہ جنس کسی کا احسان نہیں مانتی بلکہ جہاں کوئی بات خلاف طبع سامنے آتی ہے تو تمام کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے اسی ناسپاسی کی وجہ سے جہنم کا زیادہ حصہ ان سے بھرا ہوا دکھایا گیا۔ ( شرح الکرماني:1؍ 136)۔ 2۔ کفر کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں اگر کسی نے ان میں سے ایک کا بھی ارتکاب کیا اور توبہ کے بغیر مر گیا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں فرمائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ 1۔ کفر انکار: دل اور زبان سے اللہ کی وحدانیت کا انکار کرے اور توحید کی باتوں پر کان نہ دھرے، 2۔ کفر جحود: دل سے حقیقت کو پہچان لے لیکن زبان سے اس کا معترف نہ ہو جیسا کہ ابلیس لعین نے کفر کیا تھا۔ 3۔ کفر عناد: دل اور زبان سے حقیقت توحید کا معترف ہو لیکن اسے قبول نہ کرے جیسا کہ خواجہ ابو طالب نے کیا۔ 4۔ کفر نفاق: زبان سے اعتراف کرے اور اس کے مطابق احکام بھی بجالائے لیکن دل میں اس سے نفرت ہو جیسا کہ منافقین کا کفر ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان چاراقسام کے علاوہ ایک اور قسم بھی ہے جس کا نام کفر الحقوق ہے جس کے اثبات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کیا ہے اور جس کا مرتکب دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ 3۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کفران نعمت سے ایمان میں کمی ہو جاتی ہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے نیز ایمان پر انسانی اعمال اثر انداز ہوتے ہیں عورتوں کو اسی بنا پر ناقصات الدین کہا گیا ہے۔ (شرح الکرماني:1؍ 137)۔ 4۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب اور آئندہ چند ابواب سے ایمانیات کو مزید منقح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جس طرح کفر کے مراتب ہیں اسی طرح ایمان میں بھی فرق مراتب ہے ایمان کا ایک ایسا درجہ بھی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ہمیشہ کے لیے اس پر جنت حرام ہو جاتی ہے اور اگر وہ موجود ہو تو خلود فی النار کے لیے سدراہ بن جاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح مراتب کفر میں ایک ایسا درجہ ہے کہ معاذ اللہ اگر وہ انسان میں آجائے تو دخول جنت اس کے لیے شجر ممنوعہ بن جاتا ہےاور اس حالت میں مرنا خلود فی النار کا باعث ہے۔ اس سے یہ بات بصراحت معلوم ہوئی کہ معاصی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں اور طاعات سے ایمان کی نشوو نما ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
اور اس باب میں ایک حدیث حضرت ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے جسے وہ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
اس حدیث کو ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، وہ امام مالک سے، وہ زید بن اسلم سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔‘‘ کہا گیا حضور کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دوطرح کا ہوتا ہے ایک تو کفرحقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگریہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابو سعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انھوں نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا: ’’تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔‘‘ ابن عباس ؓ کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کردیا ہے۔ امام قسطلانی فرماتے ہیں: "وفي هذا الحديث وعظ الرئيس الرؤوس وتحريضه على الطاعة ومراجعة المتعلم العالم والتابع المتبوع فيما قاله إذا لم يظهر له معناه." الخ یعنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کرلے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ حضرت امام نے کفردون کفر کا ٹکڑا حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾(المائدۃ: 44) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ (اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سوایسے لوگ کافر ہیں) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا خلود فی النار ہے۔ اس لیے علماء محققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے: (1) کفربالکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔ (2) کفرجحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفرتھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔ (3) کفرعناد ہے یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید ورسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی وحال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ (4) کفرنفاق ہے یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ﴾ (البقرۃ: 13) میں مذکور ہے۔ (یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ (انصار ومہاجرین) لائے ہوئے ہیں توجواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی (منافق) بے وقوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said: "I was shown the Hell-fire and that the majority of its dwellers were women who were ungrateful." It was asked, "Do they disbelieve in Allah"? (or are they ungrateful to Allah?) He replied, "They are ungrateful to their husbands and are ungrateful for the favors and the good (charitable deeds) done to them. If you have always been good (benevolent) to one of them and then she sees something in you (not of her liking), she will say, 'I have never received any good from you".