تشریح:
1۔اس حدیث میں قریش کے لیے بالعموم بددعا کرنے کے بعد بالخصوص سات آدمیوں پر بددعا کا ذکر ہے چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 520)صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب قریش پر بددعا کی تو ان پر بہت گراں گزری کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اس شہر میں خاص طور پر بیت اللہ میں دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث:240) 2۔راوی جس ساتویں شخص کانام بھول گیا وہ عمارہ بن ولید ہے جیسا کہ دوسری روایت سے ظاہر ہے۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:520) اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ہنگامی حالات میں ایک طبقے کے خلاف بددعا کی ہے۔ اسی طرح جنگی حالات میں بھی مشرکین کے خلاف یعنی ان کی شکست اور ان کے قدم پھسلنے کی دعا کی جا سکتی ہے۔