تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دینا ایمان کاحصہ ہے لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ اعزاز نہیں کہ اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیا جائے،بلکہ ایساکرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کیونکہ اگر غیرنبی کی بیعت موت پر کی جائے، پھر اس کی غلطی واضح ہوجائے تو دوصورتیں ہیں: اس کی بیعت پر بدستور قائم رہا جائے۔ اس صورت میں موت خلاف حق ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی بیعت ترک کردی جائے۔ اس وقت موت ترک بیعت پر ہوگی۔ دونوں صورتیں ہی ہلاکت خیز ہیں، اس لیے آغاز امر میں بیعت نہ کرنا آسان ہے کہ موت خلاف حق یاترک بیعت پر آئے۔ 2۔واضح رہے کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے مرمٹنے پر بیعت لے رہے تھے جس کا انکار حضرت عبداللہ بن زید ؓنے کیا۔اس کامطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول اللہ ﷺکے دست حق پر موت کی بیعت کرچکے ہیں، اب دوبارہ کسی دوسرے کے ہاتھ پر نئے سرے سے بیعت کی ضرورت نہیں۔ 3۔اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنا واضح نہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒنے آگے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت موت پر ہوئی تھی۔