قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ اسْتِئْذَانِ الرَّجُلِ الإِمَامَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِهِ: {إِنَّمَا المُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ} [النور: 62] إِلَى آخِرِ الآيَةِ

2967. حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ المُغِيرَةِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَلاَحَقَ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ لَنَا، قَدْ أَعْيَا فَلاَ يَكَادُ يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: «مَا لِبَعِيرِكَ؟»، قَالَ: قُلْتُ: عَيِيَ، قَالَ: فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَزَجَرَهُ، وَدَعَا لَهُ، فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: «كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ؟»، قَالَ: قُلْتُ: بِخَيْرٍ، قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ، قَالَ: «أَفَتَبِيعُنِيهِ؟» قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِعْنِيهِ، فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرهِ، حَتَّى أَبْلُغَ المَدِينَةَ قَالَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَرُوسٌ، فَاسْتَأْذَنْتُهُ، فَأَذِنَ لِي، فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى المَدِينَةِ حَتَّى أَتَيْتُ المَدِينَةَ، فَلَقِيَنِي خَالِي، فَسَأَلَنِي عَنِ البَعِيرِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ، فَلاَمَنِي قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ: «هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟»، فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا، فَقَالَ: «هَلَّا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوِ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ، فَلاَ تُؤَدِّبُهُنَّ، وَلاَ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ قَالَ المُغِيرَةُ هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لاَ نَرَى بِهِ بَأْسًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی روشنی میں کہ ” بے شک مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب وہ اللہ کے رسول کے ساتھ کسی جہاد کے کام میں مصروف ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر ان کے یہاں سے چلے نہیں جاتے ۔ بے شک وہ لوگ جو آپ سے اجازت لیتے ہیں “ ۔ آخر آیت تک ۔

2967.

حضرت جابر بن عبد اللہ  ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان جنگ میں تھا، مجھے نبی ﷺ ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر سوار تھا جو اس وقت تھکاوٹ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا: ’’تیرے اونٹ کو کیا ہو گیاہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: یہ تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ وہ سب اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’اب اپنے اونٹ کوکیسے دیکھ رہے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: بہت اچھا ہو گیا ہے اور اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کروگے۔‘‘ مجھے شرم آگئی کیونکہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا اونٹ پانی لانے والا نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے عرض کیا: (میں بیچتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: ’’اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔‘‘ تو میں نے اسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور یہ شرط کی کہ مدینہ طیبہ پہنچنے تک اس پر سواری کروں گا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے حال ہی میں شادی کی ہے، اس لیے مجھے پہلے جانے کی اجازت دیں تو آپ نے مجھے اجازت دے دی، چنانچہ میں مدینہ طیبہ جانے کے لیے لوگوں کے آگے آگے ہوا۔ جب میں مدینہ طیبہ پہنچا تو میرے ماموں نے اونٹ کے متعلق دریافت کیا۔ میں نے جو کچھ واقعہ ہوا تھا ان سے بیان کیا تو انھوں نے مجھے ملامت کی۔ حضرت جابر  ؓ کہتے ہیں کہ جب میں نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت لی تھی تو آپ نے مجھے فرمایا: ’’ کیا تم نے کنواری سے شادی کی ہے یا کسی بیوہ سے؟‘‘ میں نے عرض کیا: شادی شدہ سے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم نے کنواری سے شادی کیوں نہ کی، تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی ؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میرے والد گرامی فوت ہوگئے یا شہید ہوگئے اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں تو میں نے ان جیسی لڑکی سے نکاح کرنا اچھا نہ سمجھا جو نہ تو انھیں ادب سکھا سکے اور نہ ان کا انتظام کر سکے، اس لیے میں نے ایک بیوہ سے نکاح کیا ہے جو ان کا انتظام بھی کرے اور انھیں ادب بھی سکھائے۔ حضرت جابر  ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میں صبح سویرے آپ کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اس کی قیمت بھی ادا کردی اور اونٹ بھی مجھے واپس کردیا۔ (راوی حدیث) مغیرہ کہتے ہیں کہ یہ ادائیگی کی بہتر صورت ہے۔ ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔