تشریح:
1۔ امام بخاری ؓ کا مقصد دوباتیں ثابت کرنا ہے۔ © حائضہ عورت کی گود میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت کرنا۔ © حائضہ عورت کا جزدان میں لپٹے ہوئے قرآن کو اس کی ڈوری سے اٹھانا۔ یہ دونوں باتیں جائز ہیں۔ حدیث عائشہ ؓ سے پہلی بات ثابت ہوتی ہے جبکہ ابو وائل کے اثر سے دوسری بات کا ثبوت ملتا ہے۔ اس اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (2/342) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ قرآن مجید پردو طرح کے غلاف ہوتے ہیں: ایک وہ جو جلد کے گتوں پر سلا ہوتا ہے، جسے چولی کہتے ہیں، دوسرا وہ جس میں اسے لپیٹا جاتا ہے، اسے جزدان کہا جاتا ہے۔ حائضہ عورت کا چولی کو ہاتھ لگانا درست نہیں۔ البتہ جزدان کے ساتھ حائضہ عورت اسے اٹھا سکتی ہے، کیونکہ وہ اس سے الگ ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ حائضہ عورت اور جنبی مرد قرآن مجید کو ہاتھ نہیں لگاسکتے۔ البتہ گود میں تکیہ لگا کر قرآن کی تلاوت کرنا چیزے دیگر است۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نجاست کے قرب میں تلاوت قرآن کی ممانعت نہیں، کیونکہ حائضہ کا وہ حصہ جسم جس سے حیض خارج ہو رہا ہے وہ ناپاک ہے اور اس کی گود میں سر رکھ کر تلاوت قرآن کی اجازت ہے۔
2۔ امام بخاری ؒ نے اسی حدیث کو بایں الفاظ بھی بیان کیا ہے: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ میری گود میں سر رکھ کر تلاوت کرتے جبکہ میں حالت حیض میں ہوتی۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7549) اس روایت سے معلوم ہوا کہ گود میں تکیہ لگانے سے مراد سر رکھنا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے محقق ابن دقیق العید کا ایک عجیب استدلال نقل فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کرنا اس امرکی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حائضہ تلاوت نہیں کر سکتی، اس لیے کہ اگر خود اسے تلاوت کرنے کی اجازت ہوتی تو اس کی گود میں امتناعِ قراءت کا سوال ہی کیا تھا، جس کے دفاع کے لیے قراءت وغیرہ کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ حافظ ابن حجر ؒ مزید لکھتے ہیں کہ اس سے ملامست حائضہ کا جواز بھی معلوم ہوا۔ نیز اس کے کپڑے اور بدن بھی پاک ہے، بشرطیکہ وہاں نجاست نہ لگی ہوئی ہو۔ (فتح الباري:522/1)